آرمی ترمیمی ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹس ترمیمی ایکٹ 2023 باقاعدہ قانون بن چکے ہیں جن کے گیزٹ نوٹیفیکیشنز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
پاکستان آرمی امینڈمنٹ بل 27 جولائی کو سینیٹ نے پاس کیا، یہی بل 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے پاس کیا، یہ بل ایوان صدر کو دو اگست کو موصول ہوا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی نے پہلی اگست کو پاس کرکے سینیٹ کو بھیجا، سینیٹ نے کچھ اعتراضات لگا کر واپس قومی اسمبلی میں بھیجا جسے دور کرکے قومی اسمبلی نے 7 اگست کو منظور کیا، یہ بل صدر مملکت کو بھیجا گیا جو 8 اگست کو موصول ہوا۔
آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب کوئی بل صدر مملکت کے پاس منظوری کیلئے بھیجا جاتا ہے تو ان کے پاس دو اختیارات ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس بل پر اپنی رضامندی دے دیں اور وہ قانون بن جائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ بل پر اپنی آبزرویشنز تحریری صورت میں واپس بھیجیں تاکہ مجلس شوریٰ ان رہنمائی پر غور کرسکے۔
یہ دونوں اختیارات استعمال کرنے کیلئے قانون میں ٹائم لمٹ 10 دن لکھی گئی ہے۔
نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کے مطابق صدر مملکت نے 10 دن میں نہ تو بل پر دستخط کیے اور نہ مشاہدات درج کرکے واپس بھجوائے۔
مزید پڑھیں
صدر اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں، وزارت قانون نےعارف علوی کا دعوی مستردکردیا
بل کے معاملے میں ایک فرد نہیں بلکہ 3 سے 4 افراد ملوث ہیں، صحافی حامدمیر کا تجزیہ
عملے کو مورد الزام ٹھہرانا گھٹیا بہانہ، صدر استعفیٰ دیں، سیاسیرہنماؤں کا صدر کے بیان پر ردعمل
سینیٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹس ترمیمی ایکٹ 2023 کے قانون بننے کا گیزٹ نوٹیفیکیشن 18 اگست جاری کیا گیا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صدر کی توثیق کے بعد دونوں گیزٹ نوٹیفیکیشن سینیٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کئے گئے۔
حالانکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بلوں کی توثیق اور ان پر دستخط کرنے کی تردید کرچکے ہیں۔
گیزٹ نوٹیفیکیشنز قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ویب سائٹس پر جاری کردیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کا کہنا ہے کہ صدر نے 10 دن میں بلز واپس نہیں بھجوائے تو وہ خودبخود قانون بن گئے۔