صدر عارف علوی کی جانب سے دو اہم قانونی بلز پر دستخط نہ کرنے کے دعوے نے ایک بڑا بحران کھڑا کردیا ہے جس کے بعد ایک اہم آئینی سوال سامنے آیا ہے اور سپریم کورٹ میں آئین کی عبارت بالخصوص ایک لفظ پر بحث کی توقع ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ہفتہ کو جب بلز پر دستخط کی خبر آئی تو آئین کے تحت یہ بل واپس کرنے کا وقت گزر چکا تھا۔
اگر صدر نے دستخط نہیں کیے تو بل واپس کرنے کا وقت گزرنے کے بعد ان کی حیثیت کیا ہے یہ نقطہ بحث طلب ہے۔ وزارت قانون کی جانب سے بظاہر یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ صدر مقررہ 10 دن میں بل پر دستخط نہ کریں تو وہ خودبخود قانون بن جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کے دستخط نہ کرنے سے بل خودبخود قانون نہیں بنتا بلکہ مسترد تصور کیا جاتا ہے۔
صدر مملکت کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل دو اگست کو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد بھجوایا گیا تھا جبکہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ ترمیمی بل 8 اگست کو بھیجا گیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق کوئی بھی بل جب ایوان صدر میں موصول ہوتا ہے تو صدر کو 10 دن کے اندر اندر اس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہی بات وزارت قانون نے اپنے بیان میں کہی ہے۔
صدر پاکستان نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر اعتراض 10 دن کی آئینی مدت کے بعد کیا۔
آرٹیکل 75 کی شق ایک کے تحت پارلیمنٹ سے بھیجے گئے بل کو صدر مملکت دس دن کے اندر اندر یا تو منظور کرلیں گے یا پھر بل پر اعتراض کے ساتھ اسے واپس بھجوائیں گے۔
آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق صدر کے واپس بھجوائے گئے بل کو پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے منظور کرانا لازم ہوتا ہے، جوائنٹ سیشن سے منظوری کے بعد بل دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جاتا ہے۔آرٹیکل 75 کے تحت صدر 10 دن میں بل کی منظوری نہ دیں تو بل ایکٹ کی صورت میں لاگو ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پانچ روز قبل جب صدر عارف علوی نے 13 مختلف بل واپس کیے تو ان کی واپسی کی خبریں تفصیل سے شائع ہوئیں۔
چونکہ پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد یہ بل واپس کیے گئے تھے اور انہیں دوبارہ منظور کرنا ممکن نہیں تھا لہذا صدر کے اقدام کو نمایاں کوریج ملی۔
ان خبروں میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے ترمیمی بلوں کا ذکر نہیں تھا۔ اس وقت تک کم از کم آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل واپس کرنے کا وقت کرچکا تھا لیکن ایوان صدر سے بل کو واپس کرنے سے متعلق کوئی بیان نہیں آیا۔
صدر کے قریبی ذرائع کے حوالے سے صحافی حامد میر کا دعوی ہے کہ ٹی وی پر جب (ہفتہ کو) خبر چلی کہ صدر نے بلز پر دستخط کردیئے ہیں تو عارف علوی پریشان ہوگئے، جس پر ان کے عملے نے کہا کہ یہ خبر درست نہیں، بل تو واپس بھیج دیئے گئے تھے۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ صدر مملکت معاملے پر اپنے عملے کے خلاف عدالت جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ایک معروف قانونی ماہر اور وکیل سے مشاورت بھی کرلی ہے۔
تاہم دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بل واپس بھیجنے کے لیے صدر کو اس پر اپنا اعتراض تحریری طور پر دینا ہوتا ہے اور عارف علوی نے ایسا نہیں کیا۔
تحریری اعتراض کے بغیر بل واپس نہیں جا سکتا لہذا صدر علوی محض یہ موقف نہیں اپنا سکتے کہ انہوں نے عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہہ دیا تھا۔
اتوار کو جاری بیان میں صدر علوی نے لکھا کہ کہ ’میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔‘
حسین حقانی کے مطابق صدر نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا کہ انہوں نے تحریری اعتراض کیا تھا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ تحریری اعتراض لازمی نہیں، صدر اس کے بغیر بھی بل واپس بھیج سکتے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر بعض تبدیلیاں تجویز کرسکتے ہیں لیکن یہ ’لازم‘ نہیں۔
انہوں نے بعض ماہرین کی اس رائے کو بھی مسترد کیا کہ پہلی مرتبہ ہی پارلیمنٹ سے بل موصول ہونے کے بعد صدر منظوری نہ دیں تو دس دن بعد بل خودبخود قانون بن جاتا ہے۔
اس حوالے سے آئین کی عبارت دلچسپ ہے۔ آرٹیکل 75 کی شق ون اے میں تحریر ہے
Article 75: President’s assent to Bills
a. assent to the Bill; or
b. in the case of a Bill other than a Money Bill, return the Bill to the Majlis-e-Shoora (Parliament) with a message requesting that the Bill or any specified provision thereof, be reconsidered and that any amendment specified in the message be considered.
When the President has returned a Bill to the Majlis-e-Shoora (Parliament), it shall be reconsidered by the Majlis-e-Shoora (Parliament) in joint sitting and, if it is again passed, with or without amendment, by theMajlis-e-Shoora (Parliament), by the votes of the majority of the members of both Houses present and voting, it shall be deemed for the purposes of the Constitution to have been passed by both Houses and shall be presented to the President, and the President shall give his assent within ten days, failing which such assent shall be deemed to have been given. ; and
When the President has assented or is deemed to have assented to a Bill, it shall become law and be called an Act of Majlis-e-Shoora (Parliament).
No act of Majlis-e-Shoora (Parliament), and no provision in any such Act, shall be invalid by reason only that some recommendation, previous sanction or consent required by the Constitution was not given if that Act was assented to in accordance with the Constitution.
یعنی منی بل (بجٹ) کے علاوہ کوئی بھی بل صدر ایک پیغام کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھیجیں گے جس میں وہ کہیں گے کہ بل یا اس کی کسی خاص شق پر نظر ثانی کی جائے اور پیغام میں بتائی گئی کسی ترمیم پر غور کیا جائے۔
اگر یہ معاملہ عدالتوں میں گیا تو اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ آیا یہ پیغام تحریر کی صورت میں ہونا چاہیے یا زبانی بھی ہوسکتا ہے۔
اگر صدر عارف علوی نے بل واپس کرنے کے لیے واقعی کوئی تحریری نوٹ نہیں لکھا تھا تو لفظ ’پیغام‘ کی تشریح اہم ہوگی۔
اس کے علاوہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ صدر نے بلز پر دستخط نہیں کیے تو مقررہ دس دن گزرنے کے بعد ان کی حیثیت کیا ہے اس پر بھی آئین خاموش ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کہتے ہیں کہ بل پر صدر کے دستخط لازم ہیں۔ اس کے بغیر نوٹیفکیشن نہیں ہوسکتا۔ اگر وزارت قانون یہ موقف اپناتی ہے کہ 10 روز کی مدت گزرنے کی وجہ سے بل خود بخود قانون بل گئے تو اس کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں ۔