وزارت قانون و انصاف نے صدر عارف علوی کے بیان پر کہا ہے کہ صدر نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی، اگر انہوں نے کسی چیز کی نشاندہی کرنی تھی تو اپنی رائے کے ساتھ بل بھیج دیتے، اب وہ اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں۔
صدر پاکستان عارف علوی کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل کے تردیدی بیان پر وزارت قانون و انصاف نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں۔
وزارت قانون نے بیان جاری کیا ہے کہ جب بل بھیجا جاتا ہے تو صدر کے پاس 2 آپشنزہوتے ہیں، یا وہ منظوری دیتے ہیں یا پھر معاملہ پارلیمان کو بھیج دیتے ہیں، آرٹیکل 75 اور کوئی تیسرا آپشن نہیں دیتا۔
وزارت قانون و انصاف کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں دونوں میں سے کسی بھی آپشن پر عمل نہیں کیا گیا، اور صدر عارف علوی نے جان بوجھ کر بلز کی منظوری میں تاخیر کی۔
وزارت قانون نے کہا ہے کہ کسی بھی رائے کے بغیر بل واپس بھیجنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر صدر نے کسی چیز کی نشاندہی کرنا تھی تو وہ اپنی رائے کے ساتھ بل واپس بھیج دیتے، اور بل اس طرح واپس بھیجتے جس طرح حال ہی میں اور ماضی میں بھیجتے رہے ہیں۔
وزارت قانون کا کہنا ہے کہ صدر اس حوالے سے پریس ریلیز بھی جاری کرسکتے تھے، لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے آفس کی ساکھ خراب کرنا چاہی، ان کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینی چاہئے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے کچھ دیر قبل اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ میں نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے، میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں۔
صدر نے کہا کہ میں نے اپنے اسٹاف سے یہ بل واپس بھیجنے کا کہا تھا، اور کہا تھا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے، لیکن عملے نے میری خواہش سے انحراف اور حکم عدولی کی۔