10 سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ کے مبینہ قتل کیس میں ملوث مرکزی ملزم اسد شاہ کے ڈی این اے سیمپلز لے لئے گئے ہیں، بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آج نیوز نے حاصل کرلی ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، جبکہ حویلی میں سرچ آپريشن کی انفارميشن لیک ہوگئی۔
چار روز قبل رانی پورمیں بااثر پیر کے گھر جنسی زیادتی اور تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ فاطمہ سے زیادتی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی خیرپور میر روحل خان کھوسو کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اور ملزم اسد شاہ کا بچی کے ساتھ ڈی این اے میچ ہو گیا ہے، باقی فائنل رپورٹ بعد میں آجائے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ملزم اسد شاہ سمیت چار افراد کے ڈی این ٹیسٹ کے لئے سیمپل لیبارٹری بھیجے گئے، پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ کچھ دن بعد آئے گی۔
پولیس حکام کے مطابق حویلی میں رہنے والے افراد اور ملازمین کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے سیمپل لیے جائیں گے۔
روحل کھوسو نے مزید کہا کہ پولیس اپنا کام شفاف طریقے سے کر رہی ہے، واقعہ میں جو بھی ملوث ہوگا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق خیرپور میں پیر کی حویلی کے اندر سرچ آپريشن سے پہلے انفارميشن لیک ہوگئی جس پر حویلی کے اندر موجود افراد رات کو نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
سرچ آپریشن کیلئے پولیس اہلکار اور لیڈیز پولیس حویلی کے باہر پہنچ گئے، سرچ آپریشن ایس ایس پی خیرپور کی نگرانی میں کیا جائے گا، حویلی کے اطراف کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پوليس کمانڈر کے بغیر اہلکار اندر جانے سے گریز کرنے لگے، ان کا مؤقف ہے کہحویلی پیروں کی ہے اور ہم ایسے نہیں جا سکتے، تین ڈی ایس پی، دو ایس ایچ او اور 10 لیڈی پولیس اہلکار حویلی کے باہر موجود ہیں۔
متوفی 10 سالہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ”آج نیوز“ نے حاصل کرلی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ لاش کے ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا، چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے، جب کہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی، اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھے، اور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے، اور تمام زخم موت سے پہلے کے ہیں، بچی کے سر پر بھی چوٹیں ہیں، جب کہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی ہے۔
ڈی آئی جی جاوید جسکانی نے بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ میڈیکل بورڈ نے فاطمہ سے زیادتی کا خدشہ ظاہر کیا ہے، اور فاطمہ پر جسمانی تشدد کی تصدیق کی ہے۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ کیس میں تحقیقات کے لئے سابق ایس ایچ او، ہیڈ محرر، ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کا ریمانڈ لینے کا فیصلہ کیا ہے، حقائق مسخ کرنے اور لاش بغیر پوسٹ مارٹم دفنانے پر ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا جائے گا۔
ڈی آئی جی نے مزید کہا کہ حویلی میں موجود تمام بچوں کو ریسکیو کر کے گھروں میں بھیجنے کے احکامات دیئے ہیں، جب کہ حویلی میں پولیس کیمپ قائم کر کے تمام لوگوں کے ڈی این اے سیمپلز لئے جائیں گے۔
گزشتہ روز10 سالہ ملازمہ مبینہ فاطمہ فرڑو کی قبر کشائی ہوئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس میں انکشاف ہوا تھا کہ لاش پر تشدد کے نشانات ملے ہیں، اور مقتولہ بچی کے گلے پیٹ اور بازوؤں پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔
بچی سے زیادتی کی تصدیق کے لئے کیس کے مرکزی ملزم اسد شاہ کو آج گمس اسپتال لایا گیا، جہاں ملزم کے ڈی این اے سیمپلز لیے گئے۔
ڈین این اے سیمپلز لیے جانے کے بعد پولیس اسد شاہ کولیکر واپس رانہ ہوگئی، ملزم 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے۔
مزید پڑھیں: رانی پور میں 10 سالہ فاطمہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم مکمل، لاش پر تشدد کے نشانا
ڈی آئی جی جاوید جسکانی کے حکم پر ایم ایس آر ایچ سی رانی پور علی حسن وسان کو گرفتار کرلیا گیا۔
ایمبولینس کی سہولت دینے کے الزام میں علی حسن وسان کو گرفتار کیا گیا۔
ڈی آئی جی جاوید جسکانی کا کہنا ہے کہ ایمبولینس میں لاش کو لے جانےوالے ڈرائیور نے ایم ایس کا نام لیا ہے۔
فاطمہ کو تشدد کر کے مبینہ طور پر قتل کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرکے فوری سزا دینے کیلئے سیاسی سماجی اور شہریوں کی جانب سے رانی پور میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرے کے قیادت ڈاکٹر نظیر کھو کھر کر رہے تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ملزم اسد کو مہمان کی طرح رکھا جا رہا ہے، ملزم با اثر ہے اور لواحقین کو دھمکیاں دے رہا ہے، فاطمہ کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے، ملزمان کو فوری سزا دیکر فاطمہ کے ساتھ انصاف کیا جائے، ملزمان کو سزا دینے تک ہمارے احتجاجی مظاہرے جاری رہیں گے۔
گزشتہ روز پولیس نے ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور اسپتال کے ڈسپنسر کو بھی گرفتارکرلیا تھا، اور پولیس ذرائع نے بتایا کہ ڈسپنسر امتیاز میراسی کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں نامزد ملزم اسد شاہ نے پولیس کو بتایا کہ رانی پور سرکاری اسپتال کا ڈسپنسر علاج کیلئے آتا رہا تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پورمیں بچی کی قبرکشائی پر تنازعے کے بعد 4 پولیس اہلکار تعینات، میڈیکل بورڈ قائم
واقعہ کے بعد حویلی میں کام کرنے والی ایک سابقہ ملازمہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں لڑکی نے الزام لگایا کہ اگر حویلی سے نہ بھاگتی تو مجھے بھی مار دیا جاتا۔
ویڈیو میں لڑکی نے دعویٰ کیا کہ میں رانی پور کی حویلی میں ملازمت کرتی تھی اور مالکن سارا دن گھر کا کام کرواتی تھی اگر کوئی غلطی ہوجائے تو دوسرے ملازموں سے پٹواتی تھی۔
مزید پڑھیں: رانی پور ملازمہ ہلاکت کیس: حویلی سے بھاگنے والی ایک اور لڑکی کے انکشافات
لڑکی نے مزید انکشاف کیا کہ مالکن سب ملازمین پرتشدد کرتی تھی، اور باتھ روم میں بند کر دیتی تھی، اور لڑکوں سے ہمارے بال کٹواتی تھی۔
سابقہ ملازمہ کا دعویٰ ہے کہ ایک دن مجھ سے فنائل کی بوتل گر گئی تھی تو مالکن نے مجھے خود ڈنڈوں اور وائیپر سے مارا تھا، اگر کوئی غلطی ہوجائے تو سزا کے طور پر پانی ابال کر پلاتی تھی۔
رانی پور حویلی کی سابقہ ملازمہ ہونے کی دعویدار لڑکی کا کہنا تھا کہ کام کے عیوض مہینے میں 4 ہزار روپے ملتے تھے، مالکن کے سخت تشدد سے تنگ آگئی تھی کئی بار خودکشی کرنے کا بھی سوچا تھا۔
اسد شاہ کے حویلی سے بھاگ کر ایک اور بچی ثانیہ فرڑو گھر پہنچ گئی، جس نے فاطمہ کی موت کے حوالے سے اہم بیان دیتے ہوئے بتایا کہ فاطمہ کو ہمارے سامنے تشدد کر کے مارا گیا، پیرنی نے فاطمہ کا پانی تک بند کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: فاطمہ کو ہمارے سامنے تشدد کر کے مارا گیا، ایک اور ملازمہ کا بیان سامنے آگیا
ملازمہ ثانیہ فرڑو کا کہنا تھا کہ حویلی کے تمام ملازمین پر تشدد ہوتا ہے، مجھ پر بھی تشدد کیا گیا۔
16 اگست کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا، جہاں بااثر پیر کی حویلی میں 10 سالہ بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی، ”آج نیوز“ نے رانی پور میں ہونے والے اس دلسوز واقعے کی خبر سب سے پہلے دی تھی، اور خبر نشر ہونے کے بعد انتطامیہ حرکت میں آئی اور واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں، جب کہ متوفی بچی کے والدین کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔ تاہم بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کردیا گیا، اور پولیس نے جاں بحق بچی کا میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ہی کیس داخل دفتر کردیا۔
واقعے کا مرکزی ملزم اسد شاہ کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا، اور پولیس کی درخواست پرعدالت کی جانب سے بچی کی قبر کشائی کی اجازت دی گئی تھی۔