خیبرپختونخوا میں پہلی بار ایک ایسی نگراں کابینہ سامنے لائی گئی ہے کہ اس میں سیاسی لوگوں کو بالکل آؤٹ کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل جو نگراں کابینہ میں شامل لوگ تھے اس میں زیادہ تر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے تھا اور تو اور اگر کسی وزیر کو ہٹانا ہوتا تھا تو وہ بھی سیاسی جماعت کے رہنما کے کہنے پر ہٹایا جاتا تھا جیسے کہ عدنان جلیل جن کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا، ان کو اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے کہنے پر ہٹایا گیا اور ان کے جگہ ایمل کے کہنے پر مطیع اللہ کو تعنیات کر دیا گیا۔
اسی طرح نگران صوبائی وزیر شاہد خٹک نے اپنے حلقے میں اے این پی کے امیدوار کے حق میں منعقدہ جلسے میں شرکت کی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے ایکشن لیتے ہوئے صوبائی الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا تھا لیکن نگراں وزیر اعلیٰ کے ایکشن لینے سے پہلے شاہد خٹک نے ریکشن استعفیٰ دے دیا۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن نے نگران وزیر اعلیٰ کو ایک مراسلہ لکھا جس میں ایک طرف ان کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوتے لکھا کہ آپ کا کابینہ سیاسی جماعتوں کا تشکیل کردہ کابینہ ہے اور اس میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جس پر وزیر اعلیٰ نے ایکشن لیتے ہوئے تمام کابینہ کو 10اگست کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بلاکر سب سے استعفے لے لیے نگران کابینہ کو فارغ کرنے کے بعد نئے نگران کابینہ کے لیے صلاح مشورے شروع ہوگئے اور زیادہ تر امکانات یہ تھے کہ نیا نگران کابینہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور ایجوکشنسٹ یا ججز پر مشتمل ہوگی اور آخرکار نئے کابینہ کے نام سامنے آگئے بلکہ انھوں نے حلف بھی اٹھا لیا۔
موجودہ نگراں کابینہ جنہوں نے آج ہی حلف اٹھا لیا تقریباً تمام غیر سیاسی لوگ ہیں اور ایسے ٹیکنوکریٹ ہیں جو اعلٰی تعلیم یافتہ اور اپنے شعبوں کے ماہر ہیں جبکہ مستعفی ہونے والی کابینہ کے 4 ارکان کو بھی دوبارہ شامل کیا گیا لیکن وہ بھی اپنے شعبوں میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
آصف رفیق آفریدی، محمد رفیق آفریدی کے صاحبزادے اور حیات آباد پشاور کے رہائشی ہیں وہ پاکستان اور بیرون ملک سعودی عرب میں تجارت، زراعت اور پلاسٹک مینوفیکچرنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر سرفراز علی شاہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ مصر کے علاوہ وہ فرانس اور برطانیہ میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب اللہ، محراب خان کے صاحبزادے اور ضلع لکی مروت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے میٹیریل سائنس اور میٹالرجی میں ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں، وہ یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں خدمات سرانجام دینے کے ساتھ سوات کی انجنیئرنگ یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور ان دنوں وفاقی حکومت کے پلاننگ کمیشن کے رکن ہیں۔
سید عامر عبداللہ راحت آباد پشاور کے رہائشی اور سید عبداللہ کے صاحبزادے ہیں وہ پشاور یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز اور ہالینڈ کی ایراسمس یونیورسٹی روٹرڈیم سے ڈائریکٹریٹ کر چکے ہیں۔
سید امیر عبداللہ اعلی ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر کسٹمز سروس میں منتخب ہوئے انہوں نے سول سروس اکیڈمی میں 27 ویں کامن ٹریننگ پروگرام میں پہلی پوزیشن اور صدارتی میڈل حاصل کیا تاہم بعدازاں ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ وہ نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا)کی کمیٹی آف ایکسپرٹس کے ممبر رہ چکے ہیں۔
عامرعبداللہ یو این ڈی پی اور خیبرپختونخوا حکومت کے کنسلٹنٹ کے فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں اور اپنے شعبوں میں 23 سالہ تجربہ کے حامل ہیں۔
سید مسعود شاہ باچا کا تعلق چارسدہ/ملاکنڈ سے ہے اور وہ 1990 سے 1993 اور 1994 سے 1996 تک خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس رہ چکے ہیں جبکہ 2 سال تک پنجاب میں انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیے ابھی ان کو دعا کے لیے کابینہ میں رکھا ہے کیونکہ گزشتہ نگران کابینہ میں 6 مہینوں میں ان کو کوئی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔
جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر بھی گزشتہ کابینہ میں شامل تھی قانون اور ہائیر ایجویکشن کے قلمدان ان کے پاس تھے لیکن ان کی بھی گزشتہ 6 مہینوں میں کوئی خاص کارکردگی نہیں رہی ۔
جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کو خیبر پختونخوا کی دوسری خاتون ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا اعزاز حاصل ہے وہ ہائیکورٹ کی جج رہی اور ایک قابل جج کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
احمد رسول بنگش کا تعلق کوہاٹ سے ہے پاکستان اڈیٹ اینڈ سروسز گروپ سے تعلق ہے میٹرک اور ایف ایس سی کیڈٹ کالج کوہاٹ سے پاس کی انجنئیرنگ یونیورسٹی پشاور سے بی ایس سی جبکہ نیشنل ڈیفنس کالج سے ایم ایس سی انجنئیرنگ کی۔ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان بھی رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد قاسم جان کا تعلق ہنگو سے ہے بنیادی طور پر جیالوجسٹ ہے 3 یونیورسٹیوں یونیورسٹی اف پشاور ،قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور سرحد یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر رہے
جسٹس ریٹائرڈ ارشاد حسین کا تعلق ہزارہ سے ہے یہ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری جنگلات سید نذر حسین شاہ کے بڑے بھائی ہیں وہ چیف جج آف سپریم ایفلیٹ کورٹ گلگت بلتستان رہے اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پشاور بھی رہے ہیں اور 2022میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے
بیریسٹر فیروز جمال شاہ کاکا خیل کا تعلق نوشہرہ سے ہے۔ فیروز جمال کے والد جمال شاہ کاکا خیل بھی وزیر رہ چکے ہیں اور فیروز جمال شاہ کاکا خیل خود بھی نگراں وفاقی وزیر اور گزشتہ نگران کابینہ میں کا بھی حصہ رہے موجودہ نگران کابینہ میں واحد سیاسی آدمی ہے ایک سیاسی بندہ بھی کابینہ میں ہونا چاہئیے۔