لاہور ہائیکورٹ نے 100 سے زائد پراسیکیوٹر کے تبادلوں کے خلاف درخواستوں پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے لارجر بینچ بنانے کی سفارش کردی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کو بھجوادی۔
عدالت نے پراسیکیوٹرز کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن معطل کر رکھا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کا ڈیلی ویجز ملازمین کا سروس اسٹرکچر عدالت پیش کرنے کاحکم
پولیس چھاپے میں بھینسیں اور زیورات لے جانے پر عدالت برہم، تفصیلیرپورٹ طلب
پرویزالہٰی کی نظر بندی کیخلاف درخواست پر سپریٹنڈنٹ کیمپ جیل لاہور سےریکارڈ طلب
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر احمد قیوم پیش ہو کر بتایا کہ سیکرٹری پراسیکیوشن کو تبادلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، سیکرٹری پراسیکیوشن نے 70 سے زائد خواتین کو دوسرے اضلاع میں تبادلہ کیا، تبادلوں کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین کے تبادلے کیے گئے، تبادلوں کا اختیار پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے پاس ہے، سیکرٹری کی جانب سے تبادلے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت سیکرٹری پراسیکیوشن کی جانب سے تبادلوں کا نوٹیفکیشن کلعدم قرار دے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی معطلی اور شوکاز کے خلاف حکم امتناعی میں توسیع کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے سماعت کی، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے وکیل بیرسٹر احمد عمر ثاقب نے بتایا کہ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی تعیناتی مخصوص مدت کے لئے ہوتی ہے،عہدے کی معیاد کے مکمل ہونے تک پراسیکیوٹر جنرل عہدے پر تعینات رہ سکتے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل کو سپیشل قانون میں درج طریقہ کار کےمطابق ہی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے، ہراسیکیوٹر جنرل پنجاب سرکاری ملازم نہیں اس لیے ان پر پیڈا ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا، پراسیکیوٹر جنرل کے خلاف کاروائی کا اختیار صرف وزیراعلی کو حاصل ہے۔
عدالتی معاون طارق کمال نے بتایا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ میں واضع ہی نہیں ہے کہ نگراں حکومت کیسے چلے گی، آئین کے تحت نگراں حکومت کو حکومتی مشینری کو ری ڈیزائن کرنے کا کوئی اختیار نہیں، روزانہ کے امور نمٹانے کے نام پر نگراں حکومت کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر پیڈا ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے خلاف یکطرفہ کاروائی نہیں ہوسکتی، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو شفاف ٹرائل کا موقع ملنا چاہئیے،پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خود مختار رائے رکھ سکتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی حکومت کے جانے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل عہدے پر تعینات رہ سکتے ہیں، کیا پراسیکیوٹرجنرل پنجاب کی تعیناتی کی کوئی اہلیت ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بتایا کہ پاکستانی شہری، 45 سالہ عمر اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ ضروری ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب قانون کے مطابق اس عہدے کی اہلیت پر پورا اترتے ہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خلیق الزماں کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگراں حکومت نے آتے ہی سیاسی بنیادوں پر کام سے روکتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کر دیا، نگراں حکومت کو عہدے سے ہٹانے، معطل کرنے یا شوکاز نوٹس دینے کا اختیار نہیں، عدالت معطلی اور شوکاز نوٹس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عہدے پر بحالی کا حکم دے۔