لاہور ہائیکورٹ نے پولیس چھاپے کے دوران شہری کی بھینسیں اور طلائی زیورات لے جانے کے خلاف درخواست میں ریڈ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے لیے باڈی کیمرے لگانے کی قانون سازی کا حکم دے دیا جبکہ عدالت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے پولیس ریڈ میں کی بھینسیں اور طلائی زیورات لے جانے کے خلاف اوکاڑہ کے شہری محمد عمران کی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت پولیس بھینسیں اور طلائی زیورات ساتھ لے گئی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آئے روز پولیس کی طرف سے شہریوں کا سامان لے جانے کی شکایات آرہی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بتائیں کیا قانون پولیس کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیا چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی پولیس کو اجازت دی جاسکتی ہے، ایسے واقعات پر انکھیں بند نہیں کر سکتے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس ریڈ کرنے والے اہلکاروں کو باڈی کیمرے دینے تک کیوں نہ پولیس چھاپوں کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے، پولیس کو کھلے عام نہیں چھوڑا جاسکتا، شہریوں کے بنیادی حقوق کو پولیس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا، کیسے پولیس بغیر قانونی جواز کے گھروں پر چھاپے مار سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ آئی ٹی پولیسنگ کی طرف چلے گئے ہیں، لاک اپ میں مکمل کیمرے لگا دیے گئے ہیں، ٹریفک وارڈنز کو باڈی کیمرے دینے کے حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ لانچ کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اور سماعت 21 اگست تک ملتوی کردی۔
دوسری طرف سی پی او گوجرانوالہ کا کہنا ہے کہ درخواست گزار میرے پاس اے شکایت کا ازالہ کروں گا ۔
یاد رہے کہ وہاڑی کے رہائشی محمد عمران نے اپنی درخواست میں پولیس کے چھاپے، بھینسیں اور طلائی زیورات لے جانے کو چیلنج کیا ہے۔