پولیس نے رانی پور میں مبینہ طور پر قتل کی گئی 10 سالہ بچی کی تحقیقات کے لئے لڑکی کے کپڑے، بستر کی چادریں، اور تکیے کا غلاف حاصل کرلیا ہے، اور بچی کی قبر پر 4 پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں، فاطمہ کی قبر کشائی کل ممکن ہوسکے گی۔
رانی پور میں 10 سالہ فاطمہ کی موت کے بعد بچی کی قبر کشائی کا معاملہ لٹک گیا ہے اور عدالتی حکم کے باوجود اس کی قبر کشائی نہیں ہوسکی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ رانی پور کے احکامات پر ڈی جی ہیلتھ سندھ نے قبر کشائی، پوسٹ مارٹم کے لئے ایم ایس پی ایم سی اسپتال کی سربراہی میں چار رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا۔
ایس ایس پی خیرپور روحیل کھوسو کے مطابق ڈی جی ہیلتھ کی جانب سے میڈیکل بورڈ تشکیل دیئے جانے کا نوٹیفیکشن موصول ہوگیا ہے۔
خصوصی میڈیکل بورڈ کے چیئرمین ایم ایس پی ایم سی اسپتال نوابشاہ ہوں گے جب کہ میڈیکل بورڈ ممبران میں شہید بے نظیرآباد ڈویژن سے فرانزک ایکسپرٹ، پروفیسر آف پیتھالوجی اور ڈی ایچ او نوشہرو فیروز شامل ہیں۔
ایس ایس پی خیرپور نے کہا کہ میڈیکل بورڈ چیئرمین اور ممبران سے رابطہ کرکے ترجیح بنیادوں پر قبر کشائی کرکے بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرے گا ۔
ان کا کہنا تھا کہ قبر کشائی میں علاقہ مجسٹریٹ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جس کیلئے ایس ایچ او رانی پور کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوشہرو فیروز کو درخواست دی گئی۔
دوسری جانب خان وان گاؤں میں بچی کی قبر پر 4 پولیس اہلکار تعینات کردیئے گئے ہیں۔ اطلاع تھی کہ مشکوک افراد قبر کے اطراف دیکھے گئے ہیں۔
بچی کے مبینہ قتل کیس کی تحقیقات میں پیش رفت سامنے آئی ہے، پولیس نے فرانزک کے لیے بچی کے کپڑے، بسترکی چادریں، اور تکیے کا غلاف حاصل کرلیا ہے۔
اس کے علاوہ 10 سالہ فاطمہ کی ہلاکت پر میڈیکل بورڈ قائم کردیا گیا جس میں ایک پوليس سرجن، ایم ایس اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔
ڈی آئی جی سکھر کا کہنا تھا کہ ملزم پیر سید اسد اللہ شاہ کے گھر سے ڈی وی آر برآمد کرلیا گیا، جس سے واقعات کے اہم ثبوت حاصل ہوسکتے ہیں جب کہ میڈیکل ٹیم بننے کے بعد بچی کی قبر کشائی ہوگی۔ اس حوالے سے قبر کے اطراف پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔
دوسری جانب پولیس ٹیم نے نوشہروفیروز ضلع کے متاثرہ خاندان کے گھر کا دورہ کیا اور فاطمہ کے خاندان کے افراد، واقعے کے وقت موجود افراد، اور طبی عملہ سے بھی بات کی۔
مزید پڑھیں: رانی پور ملازمہ ہلاکت کیس: حویلی سے بھاگنے والی ایک اور لڑکی کے انکشافات
ملزم اسد شاہ کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے، اور ایس ایچ او رانی پور اور بچی کی جھوٹی میڈیکل رپورٹ دینے والا ڈاکٹر بھی گرفتار ہوچکا ہے، جبکہ ملزمہ حنا شاہ نے ضمانت کرالی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزم اسد شاہ کو تھانے میں رکھنے کے بجائے نجی جگہ پر مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے، اور اس کی خوب خاطر مدارت بھی جاری ہے، تھانے میں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ اصل حقائق سے پردہ نہ اٹھ جائے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ بچی کے والدین پر صلح کرنے کے دباؤ دالا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 16 اگست کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا، جہاں بااثر پیر کی حویلی میں 10 سالہ بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی، بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی میں بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔
بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کردیا گیا، اور پولیس نے جاں بحق بچی کا میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ہی کیس داخل دفتر کردیا۔
بچی کے والدین کا بیان
ابتدا میں بچی کے والدین نے بیان دیا کہ ان کی بیٹی مرشد کے گھر میں کام کرتی تھی، اور غربت کی وجہ سے وہ خود اپنی بچی کو وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔
متوفی فاطمہ کے والدین نے کہا کہ ہماری بچی 3 روز سے بیمار تھی اور بیماری کے باعث وہ فوت ہوگئی ہے۔
تاہم اب پولیس کی کارروائی کے بعد بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ بچی تشدد سے جاں بحق ہوئی ہے، بچی کے ورثاء نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج بھی کیا۔