بھارتی سپریم کورٹ نے خواتین سے متعلق بات کرنے کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا۔ اس حوالے سے جاری کی جانے والی ہینڈ بک میں ان پر زور دیا گیا ہے کہ خواتین کے بارے میں بات کرتے وقت ’سیڈیکٹرس، ویمپ، اسپنسٹر اور ہارلوٹ‘ جیسے الفاظ سے گریز کریں۔ اردو میں ان الفاظ کا مطلب ورغلانے والی، بری ، بغیر شادی بوڑھی ہونے والی اور بے راہ روی کا شکار عورت کے بنتے ہیں۔
خواتین کی تضحیک اور صنفی دقیانوسی تصورات کو برقراررکھنے والی یہ قدیم اصطلاحات بھارتی عدالتوں میں باقاعدگی سے سنی جا سکتی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صنفی دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنے سے متعلق اس ہینڈ بک کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ”قانونی استدلال اور تحاریر خواتین کے بارے میں نقصان دہ تصورات سے پاک ہیں“۔
چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے وائی چندرچوڑنے ہینڈ بک میں لکھا کہ ، ’ اگر ججوں کی جانب سے نقصان دہ دقیانوسی تصورات پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو یہ قانون کے معروضی اور غیرجانبدارانہ اطلاق کو مسخ کرنے کا باعث بن سکتا ہے’۔
بھارتی چیف جسٹس نے بُک میں جنسی تفریق پر مبنی عدالتی منظر نامے کی نشاندہی کی جب جج ایک خاتون کی مبینہ عصمت دری کرنے والے ملزم سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اس بنیاد پر متاثرہ خاتوب سے شادی کرنے کیلئے تیار ہے کہ شادی شدہ ہونے سے خاتون کی بے عزتی کم ہو جائے گی اور اسے عزت ملے گی۔
نہوں نے ہینڈ بک میں لکھا، ”شادی عصمت دری کے تشدد کا علاج نہیں ہے“۔
ڈی وائی چندرچوڑ نے ثقافتی مفروضوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ان فیصلوں کے پیچھے ہیں جن کا مطلب ہے کہ خواتین میں فطری خصوصیات ہیں ، مثال کے طور پر کہ تمام خواتین بچے چاہتی ہیں یا مردوں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی ہیں۔
یہ مفروضے اب بھی بھارتی معاشرے میں رائج ہیں ، اس لیے یہ دیکھنا ہے کہ چیزوں کو تبدیل کرنے میں زبان کی مہم کتنی کامیاب ہوگی۔
حال ہی میں 2020 میں کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ سنایا تھا کہ، ’ریپ کے بعد کسی خاتون کا سوجانا نامناسب ہے۔‘
سال 2018 میں کیرالہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے ایک 24 سالہ لڑکی کو ایک مسلمان سے شادی کرنے کے لیے اپنے والدین کی مخالفت کرتے ہوئے ’کمزور‘ قرار دیا تھا، جو کئی طریقوں سے استحصال کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جج نے اس کے والدین کے حق میں فیصلہ سنایا جو چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی ان کی دیکھ بھال اور کنٹرول میں واپس آئے۔
سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ورندا بھنڈاری نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ہینڈ بک کے مشورے کا وسیع تر ہندوستانی سماج پر اثر پڑے گا۔
مزید پرھیں
سمجھوتا ایکسپریس کیس پر سابق بھارتی جج کا رد عمل
پاک بھارت کشیدگی، سابق بھارتی سپریم کورٹ کے جج بھی بول اُٹھے
دہلی میں سینٹر فار سوشل ریسرچ کی سربراہ رنجنا کماری نے اس ہینڈ بک کو ’طویل عرصے سے زیر التوا‘ قرار دیا، لیکن اس کا خیر مقدم کیا۔ کماری نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ چندرچوڑ نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ الفاظ صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ وہ فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔
“زبان ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم تصورات اور طرز عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وکلاء اس طرح کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں تو یہ متاثرین کو شرمندہ کرنے کا حصہ ہوتا ہے اور اس سے عورت کی ”قانونی تقدیر“ متاثر ہوتی ہے۔