سندھ کے نامزد نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے ان سے حلف لیا، اب وہ صوبائی کابینہ کا انتخاب کریں گے۔
سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے جسٹس مقبول باقر کا نام تجویز کیا تھا اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم نے دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد ان کے نام پر اتفاق کیا تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ رخصت ہوگئے۔
مراد علی شاہ جب رخصت ہورہے تھے تو سابق قانونی مشیر اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے ان کی گاڑی ڈرائیو کی۔ اس کے علاوہ شرجیل میمن بھی ان کے ہمراہ تھے جو گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھے۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں الوداعی تقریب میں مراد علی شاہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ مرادی علی شاہ نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔
اس موقع پر پولیس کے چاق و چوبند دستے نے انھیں سلامی پیش کی، تقریب میں سابق کابینہ اراکین نے بھی شرکت کی۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقرکی پیدائش 1957 کو کراچی میں ہوئی۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، 2002 میں انھیں سندھ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور اگلے ہی سال مستقل جج بن گئے۔
جسٹس مشیر عالم کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ذمہ داریاں ادا کیں، وہ ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے سے انکار کیا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد آخری جج تھے جو بحال ہوئے۔
2013 میں ان پر کراچی پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم لشکر جہنگوی نے قبول کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر 2015 میں سپریم کورٹ میں جج تعینات کیے گئے، جب قومی احتساب بیورو عمران خان کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے خلاف گہرا تنگ کر رہا تھا ان دنوں میں انہوں نے نیب کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جس میں سعد رفیق کیس مقبویت رکھتا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ قاضی پر جب ریفرنس دائر کیا گیا تو وہ آخری وقت تک ان کے ساتھ کھڑے رہے، انھوں نے فل بینچ فیصلے میں بھی اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ نگران وزیر اعلیٰ سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے ان کا نام احتساب بیورو کے سربراہ کے طور پر بھی دیا گیا تھا۔