پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے اپنی 15 ماہ کی مدت کے دوران سرکاری قرضوں میں 18.5 ٹریلین روپے کا اضافہ کیا جو پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں لیے گئے قرضوں سے بھی زائد ہے۔
انگریزی روزنامے میں شائع شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے بتایا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے اختتام تک مجموعی سرکاری قرضہ 44.4 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 62.9 ٹریلین روپے ہو گیا۔ صرف 15 ماہ کی قلیل مدت میں قرضوں میں 41.7 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا کیونکہ حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی قابل اعتماد حکمت عملی نہیں تھی۔
اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کا قرضہ جو کہ وزارت خزانہ کی براہ راست ذمہ داری ہے جون 2023 کے اختتام تک بڑھ کر 60.8 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ بدھ کو جاری ہونے والے ڈیٹ بلیٹن کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کے ایک سال اور تین ماہ کے دور حکومت میں 18 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔
بے قابو اخراجات، رئیل اسٹیٹ، خدمات اور زراعت جیسے شعبوں سے ممکنہ محصولات کی وصولی سے کم اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی قدر کی وجہ سے سرکاری قرضوں میں غیر مستحکم رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اپنے 44 ماہ کے دور حکومت میں سرکاری قرضوں میں 18.1 ٹریلین روپے کا اضافہ کیا تھا،اس حد کو وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامیہ نے صرف 15 ماہ میں عبور کیا۔ مرکزی بینک کی جانب سے جولائی کے لیے قرضوں کے اعداد و شمار ابھی مرتب نہیں کیے گئے ہیں۔
سرکاری قرضوں میں برق رفتاری سے اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 2008 سے 2018 تک قرضوں میں 18 کھرب روپے کا اضافہ کیا۔
عمران خان کی حکومت نے اگست 2018 سے مارچ 2022 تک مزید 18 کھرب روپے کا اضافہ کیا۔ اور اب پی ڈی ایم کی حکومت نے صرف 15 ماہ میں 18.5 ٹریلین روپے کا اضافہ کیا۔ یکم ستمبر 2018 سے مارچ 2022 کے اختتام تک پی ٹی آئی حکومت نے سرکاری قرضوں میں اوسطا روزانہ 14.5 ارب روپے کا اضافہ کیا جو مسلم لیگ (ن) کے دور میں یومیہ 5.6 ارب روپے کے اوسط اضافے سے دوگنا سے بھی زیادہ تھا۔
اب پی ڈی ایم کی حکومت نے قرضوں میں روزانہ اوسطا 41 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ جب پی ٹی آئی حکومت کی مدت ختم ہوئی تو مجموعی سرکاری قرضہ 44.4 ٹریلین روپے تھا جو معیشت کی بحالی سے قبل مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 83.5 فیصد کے برابر تھا۔ ری بیسنگ کے بعد سرکاری قرضوں میں جی ڈی پی کے 15 فیصد کی کمی واقع ہوئی لیکن مطلق طور پر کوئی کمی نہیں آئی۔
سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 74.3 فیصد کے برابر ہے۔ کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی نے بھی وفاقی حکومت کے قرضوں میں حصہ ڈالا۔ وفاقی حکومت کا مجموعی ملکی قرضہ 38.8 ٹریلین روپے تک بڑھ گیا، جو گزشتہ 15 ماہ میں 10.8 ٹریلین روپے (یا 38 فیصد) کا اضافہ ہے۔ جب عمران خان نے حکومت چھوڑی تو ملکی قرضہ 28 کھرب روپے تھا۔
وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ 15 ماہ میں 48 فیصد کی خطرناک رفتار سے بڑھ کر 22 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔ بیرونی قرضوں میں 7.1 ٹریلین روپے کا خالص اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ مارچ 2022 کے اختتام پر بیرونی قرضہ 14.9 ٹریلین روپے تھا جس میں آئی ایم ایف کے واجبات شامل نہیں تھیں۔
مجموعی قرضوں میں بیرونی قرضوں کا حصہ تقریبا 36 فیصد ہے اور شرح مبادلہ میں کوئی بھی نقل و حرکت ایک ڈالر بھی قرض لیے بغیر قرض پر بڑا اثر ڈالتی ہے۔
مارچ 2022 میں روپے اور ڈالر کی برابری ایک ڈالر کے مقابلے میں 183.5 روپے تھی جو صرف 15 ماہ کے عرصے میں 103 روپے یا 56 فیصد کی کمی کے ساتھ 286.4 روپے تک گر گئی۔ اتنی بڑی اور تیزی سے گراوٹ نے ملک میں افراط زرکو مزید بڑھاوا دیا ہے۔
قرضوں میں مسلسل اضافے کا براہ راست نتیجہ قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں بہت بڑا اضافہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام تک قرضوں کی ادائیگی 5.8 ٹریلین روپے سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔
لاپرواہی سے قرض لینے کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات اب بڑھ کر 77.1 ٹریلین روپے ہو گئے ہیں جو قومی معیشت کے حجم کے 91.1 فیصد کے برابر ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے 50 فیصد سے زیادہ کا تناسب ناقابل برداشت ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے گزشتہ 4 سالوں کے دوران، پاکستان ایف بی آر کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھانے میں ناکام رہا جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ترجیح ہونے کے باوجود مزید خراب ہوا۔ اس سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر بین الاقوامی قرض دہندگان سے غیر ملکی قرضے لینے کی ناکام حکمت عملی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اخراجات پر قابو پانے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں اور شہباز شریف کی حکومت نے اپنے پیشروؤں کی طرح ان منصوبوں اور اقدامات پر خرچ جاری رکھا جو آئین کے تحت صوبائی معاملات تھے۔