اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے لاکھوں افغان شہریوں نے ظلم و ستم اور غربت سے راہ فرار اختیار کی، کچھ کامیاب ہوئے لیکن کئی بدنصیب ایسے بھی ہیں جو دنیا بھر کے ممالک میں محدود حقوق اور آزادیوں کے ساتھ اور بہتر مستقبل کی امید کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 36 لاکھ افغانوں نے 2021 سے 2022 کے دوران ملک چھوڑا، جن میں سے زیادہ تر پڑوسی ممالک کو فرار ہوئے۔
ایک اندازے کے مطابق 2021 سے اب تک تقریباًایک لاکھ افغانوں کو امریکا اور کینیڈا میں آباد کیا جا چکا ہے، جبکہ مزید 3 لاکھ 80 ہزار افغان شہری یورپی ممالک کو جا چکے ہیں، لیکن ان میں سے بہت سے اب بھی مستقل رہائش اور شہریت کے منتظر ہیں۔
الجزیرہ نے انہی افغانوں میں سے کچھ کی کہانیاں بیان کی ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق لمحہ نبی زادہ شکر گزار ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوا، لیکن یہ ان کیلئے ایک تنہا جدوجہد رہی۔
فی الحال امریکی ریاست میری لینڈ میں اپنے چھوٹے بھائی اور والدین کے ساتھ رہائش پذیر 28 سالہ لمحہ کہتی ہیں کہ ’ہم خوش ہیں کہ ہم یہاں ہیں۔ ہم زندہ ہیں، اور ہم محفوظ ہیں، لیکن مشکلات بہت ہیں اور ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔‘
بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری اور انگریزی زبان میں مہارت کے پیش نظر وہ اپنے خاندان کے لیے ایک پیچیدہ امریکی امیگریشن سسٹم سے گزر کر وہاں بسنے، کام کرنے اور روزمرہ زندگی کو ترتیب دینے کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار رہی ہیں۔
لمحہ کا بھائی خوشنود نبی زادہ میڈیا اور حکومت میں کام کرتا تھا۔ طالبان کے قبضے سے چند ماہ قبل، کابل میں ان کی گاڑی پر ایک دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا، لیکن 36 سالہ خوشنود محفوظ رہا تھا۔
26 اگست 2021 کو امریکہ پہنچنے کے بعد لمحہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ سات ماہ تک وسکونسن کے ایک فوجی اڈے پر 60 لوگوں کے ساتھ کھلی بیرک میں رہیں۔
فوجی اڈے پرانہوں نے انگریزی پڑھائی اور حال ہی میں پہنچے افغانوں کی خدمت کرنے والے قانونی کلینکس میں ایک ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں۔
لمحہ نے سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے اور ہزاروں دیگر افغانوں کی طرح ان کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔
ان کے والدین انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پیرول پر ہیں، یہ ایک عارضی حیثیت ہے جو امریکی حکومت کی طرف سے دسیوں ہزار سے زائد افغانوں کو دی گئی ہے جو گزشتہ دو سالوں میں وہاں منتقل ہو چکے ہیں۔
پیرول کی یہ دو سالہ حیثیت لوگوں کو کام کرنے اور کچھ سرکاری مدد حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، لیکن رہائش یا شہریت کا کوئی قانونی راستہ فراہم نہیں کرتی۔
لیکن ان کی دو سالہ پیرول کی مدت اب ختم ہو رہی ہے۔ لمحہ کہتی ہیں ’میں جانتی ہوں کہ یہ ایک اچھا ملک ہے اور یہ مواقع کی سرزمین ہے، لیکن یہاں ہمارے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے‘۔
افغانستان میں پولیس فورس میں خدمات انجام دینے والی خاطرہ ہاشمی کو 2020 میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مبینہ طور پر گولی مارنے، چھرا گھونپنے اور اندھا کرنے کے بعد علاج کے لیے بھارت منتقل کیا گیا تھا۔
34 سالہ خاتون اب نئی دہلی میں ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہیں اور اب بھی اپنے زخموں سے صحت یاب ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی انہیں ماہانہ اعزازیہ دیتی ہے، لیکن یہ ان کی دو سالہ بیٹی اور شوہر محمد نبی ہاشمی کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے، چونکہ اب طالبان کی حکومت ہے اور افغان حکومت نے ان کی اجرت کی ادائیگی روک دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں ٹھیک ہو رہی تھی تب بھی مجھے تنخواہ ملتی تھی جس سے ہماری مدد ہوتی تھی۔ افغان ساتھی اور سول سوسائٹی کے دوست بھی تھے جو ہمیں مدد فراہم کر رہے تھے۔ لیکن پھر طالبان نے قبضہ کر لیا اور سب کچھ رک گیا‘۔
کاطرہ ہاشمی نے افغان حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے ساتھ دوبارہ آبادکاری کے لیے ان کے متعدد انٹرویوز بھی ہو چکے ہیں، لیکن اس کے بعد سے انہیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد شاہد (فرضی نام) نے پاکستان میں پناہ لی۔ لیکن اسلام آباد میں زندگی ان کے، ان کی بیوی اور ان کے تین بچوں کے لیے آسان نہیں رہی۔
شاہد حفاظتی خدشات کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی جسے الجزیرہ نے قبول کرتے ہوئے انہیں ایک فرضی نام ”شاہد“ دیا۔
شاہد نے بتایا کہ ’ہم تقریباً خالی ہاتھ پاکستان آئے تھے۔ جو تھوڑی سی بچت ہم اپنے ساتھ لائے تھے وہ سب ختم ہو گئی ہے‘۔
شاہد امریکی فوج یا امدادی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے لیے امریکی نقل مکانی کے پروگرام کے لیے اہل ہیں۔ لیکن وہ دو سال سے امریکی حکومت کی طرف سے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
35 سالہ شاہد نے دیگر یورپی ممالک میں بھی سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
پاکستان میں مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہاں میرے ویزا کی تجدید بہت مشکل رہی ہے۔ لیکن میرے تمام دستاویزات کے باوجود مجھے گزشتہ چند مہینوں میں دو بار حراست میں لیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ انہیں رہائی کے لیے رشوت دینی پڑی۔
یعقوب خالقی ایک امریکی فنڈڈ این جی او کے لیے کام کرتے تھے اور اکتوبر 2021 میں برطانیہ پہنچے تھے۔
30 سالہ یعقوب اور ان کی اہلیہ، خکلہ شیرزاد کے پاس ”غیر معینہ مدت کے لیے چھٹی“ کی حیثیت ہے، یہ ایک قانونی انتظام ہے جو لوگوں کو برطانیہ میں جب تک چاہیں رہنے، کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ اسے برطانوی شہریت کے لیے درخواست دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
شیرزاد کو اس بنیاد پر برطانیہ میں داخلہ دیا گیا کہ وہ بی بی سی پشتو میں بطور صحافی ملازمت کرتی رہی ہیں۔
وہ نوٹنگھم میں رہتے ہیں، جہاں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے لیے کام کرتے ہیں، یہ ایک خیراتی ادارہ ہے جو انسانی بحران سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
یعقوب خالقی نے کابل میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ لاء آرگنائزیشن کے مترجم کے طور پر کام کیا۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، ’ہم نے قوانین اور ضوابط کا ترجمہ کیا، اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر قوانین کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔‘
طالبان کے قبضے سے پہلے، خالقی نے مقامی ٹی وی اسٹیشنوں کے ساتھ ایک فری لانس صحافی کے طور پر پانچ سال تک کام کیا۔
کابل کے سقوط کے ایک ماہ بعد، خالقی اور شیرزاد کو برطانوی حکومت کی طرف سے پیغام ملا کہ انہیں برطانیہ جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ وہ 25 ستمبر 2021 کو اسلام آباد گئے اور ایک ماہ بعد برطانیہ پہنچے۔
افغانستان چھوڑنے کے بعد اس جوڑے کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہوئی۔
خالقی نے کہا، ’میری بیٹی یہاں برطانیہ میں تعلیم حاصل کر سکتی ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ وہ دیگر افغان لڑکیوں کے ساتھ ہمارے وطن میں اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گی۔ اس سے افغان عوام کے روشن مستقبل کی تعمیر میں مدد ملے گی۔‘
صابر اسدی کو اپنی اہلیہ کے ساتھ افغانستان سے فرار ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال ہو گیا ہے، لیکن وہ کئی مہینوں سے دوبارہ واپس جانے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔
اس بار، وہ ایک خصوصی انسانی ہمدردی کے ویزے پر برازیل جانا چاہتے ہیں، لیکن فی الحال وہ ایران میں پھنس گئے ہیں۔
30 سالہ صابر اسدی کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے جس پر مسلح گروہوں کے حملے بڑھتے رہے ہیں۔
ان کے پاس کمپیوٹر سائنس میں ڈگری ہے، اور وہ اور ان کی اہلیہ اپنے دستاویزات کو ترتیب دینے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، اس لیے اسدی کا خیال ہے کہ ان کے پاس ویزا حاصل کرنے کا ایک معقول موقع ہے، لیکن کسی چیز کی ضمانت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’صرف میری بیٹی کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا باقی رہ گیا ہے، جو ایران میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ ابھی ایک سال کی ہوئی ہے‘۔
طالبان کے قبضے کے تقریباً چھ ماہ بعد وہ افغانستان سے چلے گئے تھے۔
طالبان کے قبضے کے بعد قطر منتقل ہونے والے افغان مہاجرین میں جگہ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ایران کا سفر کیا۔
ہو سکتا ہے کہ انہیں ایران میں اب جسمانی طور پر کوئی خطرہ نہ ہو، لیکن انہیں اور ان کے خاندان کو چیلنجوں کے ایک نئے سیٹ کا سامنا ہے۔
اسدی نے کہا کہ مجھے ایران میں مستقبل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ میرے دوست اور جاننے والے برازیل چلے گئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ چند سالوں کے بعد پاسپورٹ حاصل کر سکتے ہیں، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہاں (ایران میں) آپ 50 سال تک بھی رہیں تو وہ آُ کو نہیں ملے گا۔