نئی حلقہ بندیوں سے انتخابات کرانے کا مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
عام انتخابات 90 روز میں کرانے اور نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری کا مشترکہ مفادات کونسل کا نوٹیفیکیشن معطل کرانے کے لیے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
مردم شماری کے حتمی نتائج: کراچی میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوںمیں اضافہ
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تیاریاں شروعکردیں
الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں پر فیصلہ نہ کرسکا، ایک اور اجلاس بلانےکا فیصلہ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے خلاف آرٹیکل 184/3 کے تحت آئینی درخواست دائر کی۔
سپریم کورٹ بار کی جانب سے دائرہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ وہ 90 روز میں عام انتخابات کا انعقاد کرائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ کی مشترکہ مفادات کونسل میٹنگ میں شرکت کو غیر قانونی قرار دیا جائے، قومی اسمبلی کی تحلیل سے ایک ہفتہ قبل مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری لینے کا مقصد انتخابات میں تاخیر کرنا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری کا مشترکہ مفادات کونسل کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے، قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل پر نوے دنوں میں انتخابات کروانا آئین کا بنیادی جزہے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں تاخیر آئین کوسبوتاژکرنے کے مترادف ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب اورخیبر پختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ 90 روز میں الیکشن کروانے کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہے، 2 صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر ازسر نو مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل ہی نہیں کرسکتے، نگراں حکومتوں کا کام آئین و قانون کے مطابق الیکشن کروانا ہے۔
درخواست کے مطابق نگراں وزرائے اعلیٰ منتخب وزرائے اعلیٰ کی طرح اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکتے اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کے اہل ہی نہیں تھے، الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے تحت دوبارہ حلقہ بندیوں کا عمل شروع نہیں کرسکتا ہے، 90 روزگزرنے کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی حیثیت ہی غیرقانونی ہے، نئی مردم شماری نوٹیفائی کرنے کا مقصد الیکشن التواء کے سوا کچھ نہیں۔
آئینی درخواست میں وفاق، چاروں صوبائی حکومتوں، سیکرٹری مشترکہ مفادات کونسل اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ۔۔