اسلام آباد ہائیکورٹ سے تحریری حکم نامہ ملنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی اسلام آباد میں اپنے گھر روانہ ہوگئے۔
شہریار آفریدی سخت سیکیورٹی حصار میں گھر روانہ ہوئے جبکہ عدالت نے آئی جی اور چیف کمشنر کو پی ٹی آئی رہنما کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں: شہریار آفریدی کی گرفتاری کیخلاف کیس کیلئے نیا بینچ تشکیل
عدالت نے شہریار آفریدی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ شہریار آفریدی اپنے اسلام آباد کے گھر میں رہیں گے، اگر شہریار آفریدی کو کچھ ہوا تو ڈی سی اور آئی جی اسلام آباد ذمہ دار ہوں گے، شہریار آفریدی کی حفاظت یقینی بنائیں۔
ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن اور آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان سے بیان حلفی بھی طلب کر لیا گیا۔
مزید پڑھیں: جی ایچ کیو حملہ کیس: شہریار آفریدی کی درخواست ضمانت مسترد
عدالت نے شہریار آفریدی کو ہدایت کی کہ امید کرتے ہیں جب تک یہ معاملہ عدالت میں زیر التواء ہے آپ بیان بازی نہیں کریں گے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ یہ کیس چلنے تک آپ کوئی بیان نہیں دیں گے، میڈیا یا سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہیں آنا چاہیے آپ کی طرف سے۔
جسٹس بابر ستار نے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار شہر یار آفریدی کی رہائی کے کیس کی سماعت کی۔ شہر یار آفریدی کو عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے شہریار آفریدی کی گرفتاری کا مجسٹریٹ کا آرڈر پڑھا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی رہائی کے بعد دوبار گرفتار، اڈیالہ جیل منتقل
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں لکھا کہ یہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس کے شواہد کیا ہیں؟ ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ آئی بی کی رپورٹ تھی کہ شہریار آفریدی ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ جسٹس بابر نے استفسار کیا کہ آپ نے رپورٹ دینے والے سے پوچھا نہیں کہ یہ جیل سے کیسے لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔
ڈی سی اسلام آباد نے جواب میں کہا کہ میری آنکھیں اور کان انٹیلی جنس ادارے ہیں، اسپیشل برانچ نے بھی رپورٹ دی تھی۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں، ایک ملزم جیل میں گرفتار ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اکسا رہا ہے، جس دن رہا ہونا تھا آپ کو یہ آرڈر کرنا یاد آگیا؟ آپ ذہن میں رکھیں توہین عدالت کی سزا چھ ماہ قید ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ڈی سی کو ہدایت کی کہ آپ یہ ذہن میں رکھ کر جواب دیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ صورتحال کشیدہ کب ہوئی ہے؟ ڈی سی نے بتایا کہ 8 اگست کو ایسی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں ایسا کیا ہوا تھا کہ صورتحال کشیدہ لگی۔
ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ ایس ایچ او سے پوچھا کہ کیا تھریٹ آرہے ہیں، عدالت نے ایس ایچ او کو روسڑم پر بلا لیا۔
ایس ایچ او نے عدالت کو بتایا کہ میرا ایک دن پہلے تبادلہ ہوا تھا اور میں نے اسی دن چارج سنبھالا تھا، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ چلیں آپ کی جان چھوٹ گئی ہے۔ ڈی پی او نے بتایا کہ میں 7 اگست کو چھٹی پر تھا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو کچھ یہ پڑھ رہے ہیں یہ تو پولیس نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
دوران سماعت، آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت میں پیش ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ ہونے سے قبل خدشات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے اور ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ تو محض ایک مذاق ہے، آئین قانون کے لحاظ سے چلانا ہے تو اس طرح چلائیں، کیا ڈی سی صاحب آپ نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا ہے۔ ڈی سی نے بتایا کہ شوکاز کا جواب جمع کروا دیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب یہ بڑا ایشو ہے ہم نے قانون کو مذاق بنا دیا ہے، عدالت ایک فیصلہ کرتی ہے اور آپ جا کر پھر ایک آرڈر اس کے خلاف نکال دیتے ہیں، سپریم کورٹ نے واضع کیا ہوا ہے کہ آپ نے ایم پی او کی وجوہات دینی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت میں شوکاز نوٹس کا ڈی سی اسلام آباد کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ڈی سی اسلام آباد پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آئندہ سماعت پر ڈی سی اسلام آباد پر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔
دوران سماعت، ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر اختیارات سے تجاوز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ وکیل ایس ایس پی طاہر کاظم نے کہا کہ پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا، تھریٹ الرٹس پر کارروائی خدشات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔
عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز پر بھی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ افسران کے نام فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
شیر افضل مروت ایڈوکیٹ نے کہا کہ بیان حلفی دینے کو تیار ہیں شہریار آفریدی سے ایک ماہ آٹھ دن سے کوئی نہیں ملا، یہاں پر موجود افسران نے عدالت سے غلط بیانی کی ہے۔
عدالت نے شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ سپرنٹنڈنٹ جیل سے تفصیل طلب کی گئی کہ شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں کس کس نے ملاقات کی؟
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا اختیار دینے کا نوٹیفیکیشن دکھائیں، نوٹیفیکیشن کہاں ہے جس میں ڈپٹی کمشنر کو یہ اتھارٹی دی گئی؟ اگر وہ نوٹیفیکیشن موجود نہیں تو پھر اتنی بحث کی بھی ضرورت نہیں۔
عدالت نے شہر یار آفریدی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کر دیا۔ شہر یار آفریدی کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی۔
شہریار آفریدی کے کیس کے بعد شاندانہ گلزار کی گرفتاری کے خلاف بھی کیس کی سماعت ہوئی، شاندانہ گلزار اپنے وکیل شیر افضل مروت کے ہمراہ روسٹرم پر آ گئیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈی سی صاحب آپ کی روزانہ میٹنگ ہوتی ہے، ڈی سی نے بتایا کہ اس کیس میں آئی بی کی رپورٹ تھی۔ عدالت نے کہا کہ لوگوں کو اشتعال دلایا وہ مواد کہاں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاندانہ گلزار کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا اور کہا کہ اگر شاندانہ گلزار کو کچھ ہوا تو آئی جی اور چیف کمشنر ذمہ دار ہوں گے۔