پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون تصویر کھنچواتے ہوئے دریا برد ہوگئیں۔
خاتون کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ خیبر پختونخوا کے نوشہرہ ضلع کی جہانگیری تحصیل کے ٹاؤن اکوڑہ خٹک میں واقع سرکاری اسکول کی پرنسپل تھیں جو سیر و تفریح کے دوران دریائے کنہار میں جاگریں اور ان کی موت واقع ہوگئی۔
کوئی خاتون کا تعلق ناران سے تو کوئی نوشہرہ سے بتاتا ہے۔
ویڈیو وائرل ہوئی تو بہت سے لوگوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا، جبکہ ان کی نماز جنازہ کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
مزید پڑھیں
فیکٹ چیک: کیا وزیرخزانہ نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام ’بیچنے‘ کی باتکی
فیکٹ چیک : وزیراعظم ہاؤس لیکس کے پیچھے مبینہ ہیکراورخریدارکون
فیکٹ چیک: رُوس میں قرآن پاک کی بےحرمتی پر سزائے موت کے نفاذ کا قانونمتعارف
دانش عباسی نامی صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مس شاہین آج (14 اگست) سیلفی بناتے ہوئے دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئیں۔ نماز جنازہ کل 10 بجے زریاب کالونی پشاور میں ادا کی جائے گی۔‘
خیال رہے کہ دریائے کنہار خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں واقع ہے جہاں سیاح اکثر حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماضی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے استاذ اور جماعت اسلامی سے وابستہ سابق رکن سندھ اسمبلی نصراللہ شجیع بھی ایک طالب علم کو بچانے کی کوشش میں اسی دریا میں ڈوب کر شہید ہو چکے ہیں۔
آج ڈیجیٹل نے معاملے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ویڈیو میں موجود 35 سالہ خاتون کا تعلق وادی کالام سے تھا جو مینگورہ بائی پاس روڈ پر واقع کالونی کہ رہائشی تھیں۔
مذکورہ ویڈیو پرانی اور دریائے سوات کی ہے۔ دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہونی والی خاتون سوات کے علاقہ اوڈیگرام گرلز ہائی اسکول میں سی ٹی پوسٹ پر تعینات تھیں۔ جو 24 جولائی کو فیملی کے ساتھ مہوڈنڈ سیر کیلئے گئی تھیں، جہاں پلوگاہ کے مقام پر تصویر بنواتتے ہوئے دریا کی موجوں کی نذر ہوگئیں۔
مرحومہ کے دو بچے، چار سالہ بیٹی اور پانچ سالہ بیٹا، ہیں۔
خاتون کے بھائی صدام حسین نے ویڈیو کی تصدیق کی کہ یہ میری بہن تھی، لیکن انہوں نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کردیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ میری مرحوم بہن کی ویڈیو کو مزید شیئر نہ کریں۔