بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی بطور نگراں وزیراعظم نامزدگی کے بعد ایک اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انہیں سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دینا پڑے گا یا پھر وہ بیک وقت سینیٹر بھی رہیں گے اور وزیراعظم بھی۔
اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں بھی ایک مرتبہ ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی تھی۔
منتخب وزرائے اعظم پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے آتے ہیں۔ سینیٹر میں سے بھی کوئی بھی منتخب وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ تاہم نگراں وزیراعظم کامعاملہ الگ ہے۔
نگراں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کے لیے آئین میں صرف ایک شرط واضح طور پر درج ہے جو یہ ہے کہ ان کے نگراں بننے کے بعد وہ خود یا ان کے شریک حیات اور بچوں میں سے کوئی بھی آنے والی اسمبلی کے انتخابات نہیں لڑ سکتے۔ آئین کے آرٹیکل 224اے میں درج یہ اصول نگراں وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر بھی ہوتا ہے۔
آئین میں اس کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی۔
اس بنا پر سینیٹر انوارالحق کاکڑ کو سینیٹ کی رکنیت سے استعفی نہیں دینا پڑے گا۔
ماضی میں اس حوالے سے مثال موجود ہے۔ نومبر 2017 میں سینیٹر محمد میاں سومرو کو نگراں وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ 2008 کے انتخابات کے بعد انہوں نے بطور چیئرمین سینیٹ اپنا عہدہ دوبارہ سنبھال لیا تھا۔
اسی بارے میں
باپ کی بنیاد رکھنے والے انوار الحق کاکڑ نگراں وزیراعظم تعینات
انوار الحق کاکڑ سے قبل پاکستان میں کون کون نگراں وزیرِ اعظم رہا
وزیراعظم کو انوارالحق کاکڑ کا نام دیا، انہوں نے میرے دیے ہوئے نام پر اعتراض نہیں کیا، راجہ ریاض
جب محمد میاں سومرو دوبارہ سینیٹ میں آئے اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ سبھالا تو ایک موقع پر ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی۔ اراکین سینیٹ نے نگراں وزیراعظم کی کارکردگی اور بالخصوص نگراں دور میں ہونے والی تقرریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ محمد میاں سومرو چیئرمین سینیٹ کی نشست پر بیٹھ کر سابق نگراں وزیراعظم کا دفاع کرتے دکھائی دیئے اور پھر انہوں نے مزید بحث کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
ماضی کی اس مثال سے واضح ہے کہ انوار الحق کاکڑ کو سینیٹ نشست نہیں چھوڑنا پڑے گی۔
اسی طرح اگر سینیٹر اسحاق ڈار نگراں وزیراعظم میں بطور وزیرخزانہ شامل ہوتے ہیں تو انہیں بھی سینیٹ کی نشست چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔