اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی اور جیل میں اے کلاس دیئے جانے کی درخواست پرتحریری حکمنامہ جاری کردیا۔ عدالت نے چیئرمین چیئرمین پی ٹی آئی کواہلخانہ اوروکلاسےملاقات کی اجازت دی ہے تاہم انہیں مزید کوئی ریلیف نہیں ملا اور وہ اتوار اور 14 اگست کی چھٹی اٹک جیل میں ہی گزاریں گے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیاہے کہ عمران خان سے ملاقاتوں کے لیے سپرنٹنڈنٹ جیل ایک یاایک سےزائددن مختص کریں۔
حکم جاری ہونے کے بعد عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہاکہ دوستوں، وکلاء اور رشتہ داروں کو ملنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن یہ ملاقات بھی جیل حکام کے رحم و کرم پرہے، نعیم پنجوتھا، عمران خان کو نہ اڈیالہ جیل میں شفٹ کیا گیا اور نہ ہی کلاس کو تبدیل کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ ہفتہ کو بھی آرڈر بھی اس وقت جاری کیا گیا جب ملاقات کا وقت ہی ختم ہو چکاتھا۔
پنجوتھا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے محفوظ کھانے کے حوالے سے بھی تا حال فیصلہ نہیں ہوسکا۔ واضح رہے کہ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ انہیں گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت دی جائے۔
حکم نامہ جاری ہونے سے قبل پنجوتھا کا ایک ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ آگے 14 اگست سے چھٹیاں ہیں، ہم چیف صاحب سے استدعا کر رہے تھے کل کہ ابھی آرڈر کردیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کو اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت پہلے ہی دے دی گئی تھی اوردو روز قبل بشریٰ بی بی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے سے اٹک جیل میں ملاقات کی تھی۔
تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا ہے کہ یہ بتایا جائے کن وجوہات کی بنیاد پر عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو گھر کا کھانا دیا جاسکتا ہے یا نہیں، اس پر آئندہ سماعت پر معاونت طلب کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’ایسا کچھ ریکارڈ پر نہیں جو قیدی کو ہفتے میں ایک سے زائد بار ملاقات سے روکے۔ جیل رولز کے مطابق جیل حکام عمران خان کی ان کے دوست، رشتہ داروں اور وکلا سے ملاقات کروائیں۔‘
عدالت نے عمران خان کو جائے نماز اور انگریزی ترجمے کے ساتھ قرآن مجید اور مناسب طبی سہولتیں فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔
حکم نامے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جمعہ کو عدالت میں دیئے گئے بیان کا بھی ذکر کیا گیا جس کے مطابق اڈیالہ جیل میں رش اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔ عدلت نے اس معاملے پر رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی ہے۔
عدالت نے لکھا کہ جیل میں ملاقات کے اوقات 8 سے 2 بجے تک ہیں، 3 بجے تک بھی ملنے دیا جاسکتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملاقات پیرسے ہفتے کے روز تک مقررہ اوقات میں کی جاسکتی ہے جبکہ مقررہ اوقات کے بعد ملاقات کی اجازت نہیں دی جاسکتی، قیدی سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقات میں قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں۔ تاہم روزانہ کی بنیاد پر ملاقات سپریٹنڈٹ جیل کی اجازت سے مشروط ہوتی ہے۔
جمعہ کو عمران خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا تھا کہ اٹک جیل میں بی کلاس سہولیات موجود ہی نہیں ہیں اور سابق وزیر اعظم کو یہاں رکھنے کا مقصد بی کلاس سہولیات مہیا نہ کرنا ہے۔ تاہم ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا ہے کہ عمران خان کو وہ تمام سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں جس کے وہ قانونی طور پر حقدار ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کا یہ بھی کہنا تھاکہ عمران خان کو کھانا جیل مینیو کے مطابق جانچ پڑتال کے بعد دیا جاتا ہے اور جیل میں پانچ ڈاکٹر موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کو آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔
اڈیالہ سے منتقلی کے معاملے پر سماعت سے قبل ہفتہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائی کورٹ اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل کا حکم نامہ جاری کیا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق اپیل ٹرائل کورٹ کے 5 اگست کے فیصلے کے خلاف ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کی شکایت پر ٹرائل چلایا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے فریقین کو سزا کے خلاف اپیل پر نوٹس جاری کردیے۔
یہ بھی پڑھیں:
’دن کو مکھیاں، رات کو کیڑے اور اوپن واش روم‘، وکیل سے ملاقات میںعمران خان نے کیا بتایا؟
عمران خان کی سزا معطل ہو جائے گی، آزادی کو انجوائے کرینگے، وکیل کاعدالت میں دعویٰ
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید، 5 سال کی نااہلی اور 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔