سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 مئی میں منظور کیا گیا تھا جس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں پر اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ اس سے قبل آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 ، جسے سوموٹو کلاز بھی کہا جاتا ہے، کے تحت دیے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف اپنی تاحیات نااہلیت کسی جگہ چیلنج نہیں کر پائے۔
اس قانون کے تحت دوسری اہم تبدیلی یہ کی گئی تھی کہ نظرثانی کی اپیل کی سماعت اس بینچ سے بڑا بینچ کرے گا جس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی ہو۔
قانون کے تحت اپیل کنندہ کو اپنا وکیل بھی تبدیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔
بل میں کہا گیا تھا کہ نئے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کے بعد 60 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی تھی۔
مزید پڑھیں:
اسمبلی تحلیل ہوتے ہی سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کالعدم قراردے دیا
سپریم کورٹ کا فیصلہ: کیا نواز شریف اورجہانگیر ترین الیکشن میں حصہ لے پائیں گے
قانون کا ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ نئے قانون کے تحت ان افراد کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا جن کے خلاف اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا گیا ہو۔ تاہم قانون میں لکھا گیا کہ ایسے افراد کو قانون نافذ ہونے کے 60 دن کے اندر اپیل دائر کرنا ہو گی۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں تھیں۔