گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت عارف علوی کو ارسال کی تھی اور صدر عارف علوی نے سمری پر دستخط کردیئے جس کے بعد قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی ہے، اور اب نگراں وزیراعظم کے لئے مشاورت جاری ہے۔
اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 3 دن کے اندر اندر وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کو نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق کرنا ہے۔ اگر یہ اتفاق نہ ہوا تو معاملہ طول پکڑ سکتا ہے اور اس دوران شہباز شریف ہی وزیراعظم رہیں گے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیراعظم کو سمری بھیجنا ہوتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت اس سمری کی منظوری صدر مملکت دیتے ہیں۔ اگر وہ منظوری نہ دیں تو بھی سمری بھیجنے جانے کے 48 گھنٹے بعد اسمبلی تحلیل تصور کی جاتی ہے۔
اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی تو آئین کے آرٹیکل 224 ون کے تحت 60 دن کے اندر اندر نئے انتخابات کرانا لازم ہوجاتا ہے، موجودہ حکمران اتحاد چونکہ الیکشن کے لیے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے لہذا مدت پوری کرنے سے پہلے اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا ہے۔
آرٹیکل 224 ون اے کے تحت نگراں کابینہ کا تقرر صدر مملکت کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرنا ہے۔
اگر جانے والے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو آئین کے آرٹیکل 224 اے لاگو ہو گا جس کے تحت دونوں دو دو نام قومی اسمبلی کے اسپیکر کی قائم کردہ کمیٹی کو تجویز کریں گے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کے آخری پارلیمانی سال میں ’بِل سینچری‘
اس کمیٹی کی اراکین کی تعداد 8 ہوتی ہے اور اس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں سے اراکین شامل کیے جا سکتے ہیں۔ چار اراکین حکومتی اور چار اپوزیشن بینچوں سے ہوتے ہیں۔
اگر یہ کمیٹی تین دن کے اندر اندر نگراں وزیراعظم پر اتفاق نہ کر پائی تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔
تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ شہباز شریف اور راجہ ریاض ہی نگراں وزیراعظم پر اتفاق کر لیں گے۔ ایسا نہ ہوا تو کمیٹی یا الیکشن کمیشن کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے اعلان تک شہباز شریف وزیراعظم رہیں گے۔