کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے مردم شماری 2023 پر بحث بے معنی قرار دے دی۔
ایک بیان میں عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ مردم شماری پر بحث بے معنی ہے، تنقیدکرنے والے 1998 اور2017 کی مردم شماریوں کا بھی جائز ہ لیں، بلوچستان کو نقصان پہنچانے والے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، صوبے کا مسلئہ قومی اسمبلی میں دو چار نشستوں کے بڑھنے سے حل نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ حقائق کو دیکھتے ہوئے نئی مردم شماری کو تسلیم کیا، آبادی کے ساتھ ساتھ پسماندگی رقبہ اور امن امان کی صورتحال کے عوامل کو بھی شامل کیا جائے۔
عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ آبادی کے ساتھ ساتھ پسماندگی رقبہ اور امن امان کی صورتحال کے عوامل کو بھی شامل کیا جائے، مشترکہ جدوجہد ہی سے وفاق سے اپنے حقوق تسلیم کروا سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبے کی تمام سیاسی قیادت دور اندیشی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرے، ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے حقیت پسند انہ اور فکری انداز میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے عبدالقدوس بزنجو نے مزید کہا کہ پسماندہ اضلاع کے لئے خصوصی گرانٹ ہونی چاہئیں، ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ طریقہ کار رائج ہے، البتہ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو یہ غلط ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:
مردم شماری میں بے ضابطگیوں پر حافظ نعیم الرحمان کا وزیراعظم کوخط
کراچی کی تین کروڑ سے کم آبادی قبول نہیں کریں گے، خالد مقبولصدیقی
بلوچستان اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں آبادی کم ظاہر کرنے پر مذمتیقرارداد پیش
ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کو بھی ماننا چاہے کہ کچھ اضلاع میں آبادی کو غیر فطری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، کچھ ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں سیلاب کے باعث بہت سے لوگ نقل مکانی کر گئے جن کا اندراج مردم شماری میں نہیں ہو سکا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مردم شماری کو صوبے کے وسیع تر مفاد میں تسلیم کیا، ماضی میں مردم شماری نہ ہونے سے صوبے کو بہت نقصان ہوا۔
این ایف سی ایوارڈ سے متعلق عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ہمیں این ایف سی میں سالانہ دس ارب روپے کم ملے، صوبے کے اس نقصان پر صوبے کی سیاسی قیادت نے کیوں چپ سادھ رکھی تھی۔
سابق وفاقی حکومت کی کارکردگی پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نے ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں جو اقدامات اٹھاۓ وہ کھلی کتاب کی مانند ہیں، بلدیاتی انتخابات کا صاف و شفاف انعقاد جب کہ ریکو ڈک کا معاہدہ بھی حکومت نے کرایا، البتہ سیاسی قیادت نان ایشوز کے بجائے حقیت پسندانہ سیاسی طرز عمل اختیار کرے۔