امریکی صدر نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت چین میں حساس ٹیکنالوجی میں امریکی سرمایہ کاری پر پابندی ہوگی، ساتھ ہی دیگر ٹیک سیکٹرز میں فنڈنگ کے لیے حکومت کی اجازت کی ضرورت ہوگی۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے چین میں ٹیکنالوجی کے جن سیکٹرز میں پابندی عائد کی ہے، ان میں سیمی کنڈ کٹرز اور مائیکرو الیکٹرانکس، کوانٹم انفارمیشن ٹیکنالوجیز اور کچھ مصنوعی ذہانت کے نظام شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: سازش کے جھوٹے الزامات مہنگے پڑ گئے، ٹرمپ کیخلاف مقدمہ کیا ہے
بائیڈن نے کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ وہ چین جیسے ممالک کی جانب سے حساس ٹیکنالوجیز اور مصنوعات میں فوج، انٹیلی جنس، نگرانی، یا سائبر سے چلنے والی صلاحیتوں کے لیے اہم خطرے سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کنسرٹ میں چیخننے والے نوجوان کو لینے کے دینے پڑگئے، اسپتال منتقل
خط کے مطابق چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کو ہدف بنایا گیا ہے، جو سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے چپس اور اوزار تیار کرتی ہیں۔ امریکا، جاپان اور نیدرلینڈز ان شعبوں پر برتری رکھتے ہیں لیکن دو بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ کو ہوا دے سکتا ہے۔ امریکی حکام نے اصرار کیا کہ ان پابندیوں کا مقصد ”انتہائی شدید“ قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تھا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ سے تعلق جرم بن گیا، امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ اسرائیلی شہری پر چینی ایجنٹ ہونے کا مقدمہ
سینیٹ کے ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے بائیڈن کے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت عرصے سے امریکی پیسے نے چینی فوج کے عروج کو ہوا دی ہے۔ امریکی سرمایہ کاری چینی فوجی پیشرفت کے لیے فنڈز میں نہ جائے۔ریپبلکن نے کہا کہ بائیڈن کا حکم کافی حد تک نہیں گیا۔
مزید پڑھیں: ہر قسم کے اسلامو فوبیا کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، چین
دوسری جانب واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ چین اس اقدام سے ”بہت مایوس“ ہے۔ بیان میں لیو پینگیو نے کہا کہ یہ پابندیاں چینی اور امریکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کو سنجیدگی سے مجروح کریں گی لیکن چین صورتحال کو قریب سے دیکھے گا۔
مزید پڑھیں: ایک ماہ غائب رہنے کے بعد چینی وزیر خارجہ اچانک برطرف
اس کے اگلے سال لاگو ہونے کی توقع ہے۔ ریگولیٹرز پروگرام کے دائرہ کار کی مزید وضاحت کے لیے مجوزہ قاعدہ سازی کا پیشگی نوٹس جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور باضابطہ تجویز پیش کرنے سے پہلے عوامی رائے طلب بھی کی جائے گی۔