حکومت اپنی آخری سانسیں لے چکی ہے، وزیراعظم شہباز شریف پرائم منسٹر ہاؤس کو الوداع اس امید کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ بھائی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد شاید وہ دوبارہ ان در و دیوار کا دیدار کرسکیں۔
اب اس خالی وزیراعظم ہاؤس کو ایک نئے مکین کی تلاش ہے، جس کے لیے مقتدرین میں مشاورتیں جاری ہیں، ناموں کی فہرست ایک سے دوسرے دروازے آجا رہی ہے۔ جس کے فائنل ہونے کے بعد ایک نیا نگراں وزیراعظم منتخب کیا جائے گا جو اپنے اختیارات کے تحت ملک باگ ڈور سنبھالے گا۔
نیا نگراں وزیراعظم ملک کی اس اتھل پتھل سیاست اور معیشت میں کیا کارنامے انجام دے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس دوران نہ جانے کیوں ایک نام دماغ میں بجلی کی مانند کوندا اور نقش چھوڑ گیا۔
وہ نام تھا ایک ’پیراشوٹ وزیراعظم‘ کا۔
1993 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان دونوں نے فوج کی ثالثی میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعد اپنے اپنے دفاتر سے استعفیٰ دے دیا۔
یہ قرارداد اپن آپ میں منفرد تھی کیونکہ ایک منتخب حکومت نے ممکنہ فوجی مداخلت سے بچنے کے لیے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیا تھا اور استعفے آئینی عمل کے ذریعے آئے تھے۔
آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل شمیم عالم نے معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنایا، اور صدر غلام اسحاق کی جگہ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا۔
اس دوران معین الدین قریشی سنگاپور کے دورے پر تھے جہاں انہیں صدر غلام اسحاق کی طرف سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی، جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ نگراں، لیکن ٹیکنوکریٹک حکومت بنائیں۔
انہوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پیشکش کو قبول کر لیا اور جلد ہی اسلام آباد واپس آگئے۔
اپنی تقرری کے وقت معین الدین قریشی عوامی اور سیاسی حلقوں سے بڑی حد تک ناواقف تھے۔ اسی لیے یہ خیال کیا گیا کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے۔
اور ہوا بھی یہی۔۔۔
معین الدین قریشی پاکستانی تاریخ کی وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں ’پیراشوٹ وزیراعظم‘ کا تنقیدی اور طنزیہ لقب حاصل ہے۔ محترم نے جولائی 1993 سے اکتوبر 1993 تک بحیثیت نگراں وزیر اعظم وزارت عظمیٰ کے مزے لوٹے۔
لیکن اس ’پیرا شوٹ وزیراعظم‘ نے اس وقت کے صدر وسیم سجاد کے ساتھ وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا جس کو آج بھی تعریفی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے بینکوں سے قرضہ خوروں اور قرضہ معاف کروانے والوں کی خفیہ فہرستیں جاری کردیں۔
ان خفیہ لسٹوں میں مارچ 1985 سے 1993 تک ان تمام افراد کے نام درج تھے جو قوم کی دولت لوٹنے میں کسی نہ کسی طرح شریک تھے۔
اس دھماکہ خیز فہرست میں آصف علی زرداری، ان کے والد حاکم زرداری، جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب کی فیملی، شہباز شریف، عباس شریف، ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہٰی اور ربانی کھر جیسے بڑی مچھلیوں کے نام شامل تھے۔
یہ اسکینڈل اتنا بڑا تھا کہ اس وقت کے اخبارات نے اسے سب سے صدی کا سب سے بڑا غبن قرار دے دیا۔
لیکن کیوں!!!
کیونکہ ریکارڈ کے مطابق ساٹھ ارب روپے سے زائد قرضہ لے کر واپس ہی نہیں کیا گیا تھا، جبکہ ڈیڑھ ارب روپے سے زائد قرضہ معاف کروایا گیا۔
اب اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ قرضہ خوروں سے لوٹ کا مال واپس نکلوایا جاتا، انہیں نااہل کرکے سزائیں دی جاتیں یا ان کی جائیدادیں نیلام کرنے کے بعد مکمل کنگال کرکے کسی پُل کے نیچے جُھگی میں بسا دیا جاتا۔
لیکن ہائے ری محض وعدوں پر اکتفا کرنے والی معصوم عوام! جس کو قرضہ واپس دینے کا لالی پاپ دیا گیا اور دوبارہ انتخابات لڑ لئے گئے۔
لیکن پیچھا یہاں بھی نہ چھوڑا گیا اور اب ’ظلم‘ یہ ہوا کہ کرپشن کی اس ثقافت کو بے نقاب کرنے کیلئے نگران وزیر اعظم نے پلاٹس کی تقسیم والی فہرستیں بھی شائع کروا دیں۔
جن کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے بیس ماہ میں 561 اور نواز شریف نے ڈھائی سال کے دورِ حکومت میں23 پلاٹس بالکل اسی طرح اپنوں میں تقسیم کئے جس طرح اندھا بانٹیں ریوڑھیاں اپنے اپنوں کو۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ معین الدین صاحب کی ٹیکنو کریٹ حکومت نے مہنگے والے صابن سے ہاتھ دھوئے اور ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، جس کی لپیٹ میں صرف سیاست دان ہی نہیں، فلمی دنیا کے کئی بڑے نام بھی آئے۔
نگراں حکومت کے ان پے در پے پڑتے ہنٹروں سے گھبرائے سیاست دانوں میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ شاید انتخابات طویل مدت کیلئے ملتوی ہونے والے ہیں۔ لیکن شو مئی قسمت کہ ایسا ہوا نہیں۔
انہوں نے تین ماہ وزارت عظمیٰ سنبھالی لیکن ان کی طرف سے کی گئی وسیع اصلاحات کی حمایت آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی انتظامات اور عالمی بینک کے اہم قرضے سے کی گئی۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے ”پیمنٹ کلچر“ کا ایک عمل شروع کیا جس میں ٹیکس چوروں اور قرض نادہندگان کو نشانہ بنایا گیا۔
معین الدین قریشی صاحب نے جب وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر18 کروڑ ڈالر تھے، لیکن جب ان کی واپسی کا وقت آیا تو یہی زر مبادلہ 49 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔۔۔ معین صاحب کیلئے تالیاں!!!!
اسلام آباد ائیر پورٹ میں اپنی آخری پریس کانفرنس کے دوران اس ’پیرا شوٹ وزیر اعظم‘ نے کہا کہ اگر ان کی معاشی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا تو ملک ترقی کرے گا۔
پریس کانفرنس ختم ہوئی اور معین الدین اپنے بوریا بستر سمیت واشنگٹن واپس روانہ ہوگئے۔
سیاست کے غلیظ دلدل سے بحافظت واپس آنے والے اس سیاست دان نے دوبارہ کبھی اس میں قدم نہیں رکھا۔
آپ کا انتقال سال 2016 میں امریکہ میں ہی ہوا جو آج محترم جناب معین الدین قریشی صاحب کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔