Aaj Logo

شائع 09 اگست 2023 08:08pm

عمران خان کی گرفتاری پر مقبوضہ کشمیر میں لوگ برہم ہیں، الجزیرہ

مشرق وسطی کے خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری سے ناخوش ہیں۔

سری نگر کے حبہ کدل علاقے کے ایک 70 سالہ رہائشی اور سیاسی مبصر غلام محمد نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پسندیدہ لیڈر کے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھ کر غمگین ہیں۔

کشمیر کے معاملے پر عمران خان کے بھارت کے ساتھ رویہ نے غلام محمد کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم کے طور پر برقراررہتے اور مودی کچھ لچک دکھاتے تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہو سکتا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’خان اس سلوک کے لائق نہیں‘۔

غلام محمد نے بتایا کہ 10 اپریل 2022 کی شام کو جب عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ ہارنے کے بعد وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا گیا تو انہیں سینے میں تکلیف کے باعث اسپتال لے جایا گیا۔

الجزیرہ کے مطابق 2018 اور 2022 کے درمیان وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے والے عمران خان پر ان کی برطرفی کے بعد تقریباً 150 مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی، جن میں بدعنوانی اور ”دہشت گردی“ کی دفعات شامل ہیں۔

بالآخر، عدالتی پیشیوں کے طویل سلسلے اور مئی میں ایک گرفتاری کے بعد ہفتے کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے انہیں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی اور الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔

غلام محمد اکیلے نہیں

مقبوضہ کشمیر میں غلام محمد جیسی سوچ رکھنے والے اور بھارت سے علیحدگی کے خواہش مندوں کی کمی نہیں ہے، یہاں پاکستان کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔

بہت سے کشمیریوں کو 2018 میں بطور وزیر اعظم عمران خان کا پہلا خطاب یاد ہے، جس میں انہوں نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ تنازعے کو حل کرنے میں ’ایک قدم آگے بڑھے، ہم (پاکستان) دو قدم بڑھائیں گے‘۔

مقبوضہ کشمیر میں اس کال کو خوب پذیرائی ملی اور بہت سے لوگوں کو اس میں امید کی ایک نادر جھلک دکھائی دی۔

لیکن اس کے کچھ مہینوں بعد مودی حکومت 5 اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی اور ملک کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کو براہ راست مرکزی کنٹرول میں دے دیا۔

اس اقدام کے بعد عمران خان کی حکومت میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کم کردیے جو ابھی تک بحال نہیں ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں

’آپ کو بعد میں لنچ کروائیں گے‘، گرفتاری کے وقت پولیس اور عمران خان کےدرمیان کیا گفتگو ہوئی؟

’چل ساڈے نال چل، ایدے منہ تے کپڑا پاؤ‘، عمران کی گرفتاری کا احوالعینی شاہد کی زبانی

دو سابق وزرائےاعظم نااہل، خواجہ حارث نے منفرد اعزاز اپنے نامکرلیا

مسئلہ کشمیر کا حال اور عمران خان

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ خطے میں اب بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت میں عمران خان بہترین آپشن ہیں۔

اس سال جون میں امریکہ میں مقیم ایک ممتاز تھنک ٹینک ”اٹلانٹک کونسل“ کے ساتھ ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ بھارت کے 2019 کے اقدام کے باوجوداس وقت کی پاکستانی حکومت ان کی سربراہی میں ”بھارت کے ساتھ امن کی تجویز“ پر کام کر رہی تھی۔ جس کے تھٹ نئی دہلی مسئلہ کشمیر کے لیے ”کسی طرح کے روڈ میپ“ کا اعلان کرتا اور یہ مودی کے دورہ پاکستان کا باعث بھی بن سکتا تھا۔

کشمیر میں عمران خان کی شہرت میں اضافے کی بڑی وجہ ان کا خود کو ایک کرپشن مخالف شخص کے طور پر پیش کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں دستکاری کے کاروبار کے مالک عمران حسین نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’نواز شریف یا آصف علی زرداری نے ان تمام سالوں میں اپنی تجوریاں بھرنے اور یورپی ممالک میں پرتعیش زندگی گزارنے کے علاوہ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ سب کرپٹ لوگوں کا ایک گروپ ہے جنہوں نے ان تمام سالوں میں پاکستان کو لوٹا‘۔

سری نگر کے علاقے رینواری کے رہائشی طارق جیلانی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا، ’یہ خاندان جو کل تک سب سے زیادہ کرپٹ تھے دوبارہ ملک پر کیسے حکومت کر رہے ہیں؟‘

سیاسیات کے طالب علم جیلانی کا خیال ہے کہ عمران خان میں عالمی رہنما بننے کی صلاحیت تھی۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر پر اقوام متحدہ میں ان کی تقریر کو دیکھیں، دوسرے ممالک کا دورہ کرتے وقت انہیں کیا احترام مل رہا تھا۔

کشمیر میں مقبول ہونے والے دیگر رہنما

الجزیرہ کے مطابق عمران خان کشمیر میں وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی لیڈر نہیں ہیں۔

1960 کی دہائی میں، فوجی رہنما فیلڈ مارشل ایوب خان خطے میں اس وقت مقبول ہوئے جب انہوں نے آپریشن جبرالٹر شروع کیا، جو مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف عوامی بغاوت کو ہوا دینے کے لیے ایک خفیہ آپریشن تھا۔

اسی طرح، پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 1965 میں بھارت کے ساتھ ”ہزار سالہ جنگ چھیڑنے“ کی تقریر نے انہیں ہمالیہ کے متنازعہ علاقے میں فوری طور پر مشہور کیا۔

فوجی حکمرانوں جنرل محمد ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بھی کشمیریوں میں اس وجہ سے مقبولیت حاصل کی کہ کشمیر کے مسئلے پر ان کے ٹھوس نقطہ نظر کو یہاں کے عوام سراہتے تھے۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار اور اسکالر شیخ شوکت حسین نے الجزیرہ کو بتایا کہ اگرچہ خان کی قید کے بعد کشمیری اب منفی خیالات رکھتے ہیں، لیکن اصل میں کشمیر کے بارے میں پاکستان کی ریاستی پالیسی ہی اہمیت رکھتی ہے، نہ کہ کسی فرد کی منظوری یا ناپسندیدگی۔

ایک مثال دیتے ہوئے حسین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بڑے پیمانے پر عدم اطمینان دیکھا گیا، لیکن ایک دہائی کے اندر ہی 1988 میں، کشمیریوں نے جنرل ضیاء الحق کی موت پر بھی سوگ منایا جنہوں جس نے بھٹو کو پھانسی دینے کا حکم دیا تھا۔

ممتاز پاکستانی صحافی حامد میر نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر عمران خان کو کشمیر میں سب سے مقبول رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت نے 5 اگست 2019 کے بعد بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیوں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ان کی خاموشی کشمیریوں کے ساتھ غداری کے مترادف تھی۔ بہت سے پاکستانیوں نے اسے کشمیر فروش کہا‘۔۔

حامد میر نے کہا کہ جب جب پاکستانی رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی تو وہ پاکستان میں طاقت اور مقبولیت سے محروم ہوگئے۔

2017 سے 2020 تک پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر رہنے والے اجے بساریہ نے کہا کہ اگرچہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان ایک ”مخلص سیاست دان“ ہیں، لیکن ان کے پاس بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو ہینڈل کرنے کے لیے ایک ”نادان ٹیم“ تھی۔

اجے بساریہ کے مطابق “انہوں (عمران خان) نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں سے شروعات کی تھی لیکن ان کی ناتجربہ کار اور ناپختہ ٹیم کی وجہ سے، بہت سی چیزیں غلط ہوئیں، خاص طور پر ان کی عجیب، لچکدار اور غیر سفارتی پوزیشن کہ بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی جب تک کہ آرٹیکل 370 بحال نہ ہو’۔

Read Comments