سینیٹ نے پیمرا ترمیمی بل 2023 سمیت کل 12 بلز منظور کرلیے جس میں سے 8 بلز یونیورسٹیز کے ہیں، اجلت میں کی جانے والی قانون سازی پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کیا تو اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا۔ ایوان بالا نے پیمرا ترمیمی بل 2023 سمیت کل 12 بلز منظور کرلئے جس میں سے 8 بلز یونیورسٹیز کے ہیں۔
سینیٹ میں وقفہ سوالات کی کارروائی کو معطل کرنے کے لیے تحریک وزیر مملکت ملک شہادت اعوان نے پیش کی جسے چیئرمین سینیٹ نے منظور کرلیا۔
سینیٹ اجلاس میں دی پرائس کنٹرول اینڈ پریوینشن ترمیمی بل 2023، اسلامک نیچر وائلڈ لائف بل 2023 اور فیڈرل پراسیکیوٹر سروس بل 2023 منظور کیے گئے۔
سینیٹ نے اسلام آباد وومن یونیورسٹی اسلام آباد 2021 بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھجوادیا۔
سینیٹ نے 8 یونیورسٹیوں کے بل بھی منظور کیے جس میں عسکری انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن بل 2023، میٹرو پولیٹن انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹش آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2023، مفتی اعظم اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد بل 2023، اسلامک یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بل 2023 کے علاوہ انٹرنیشنل اسلامک انسٹیٹیوٹ فار پیس بل 2023، کالام بی بی انٹرنیشنل وومین انسٹیٹیوٹ بنوں ترمیمی بل 2023، رحیم جان یونیورسٹی بل 2023 اور اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023 شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ایوان سے اجلت میں قانون سازی پر احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا جس کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
پیمرا ترمیمی بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرلیے گئے، وزارت اطلاعات چئیرمین پیمرا کے لیے 5 نام تجویز کرے گی۔
پیمرا ترمیمی بل 2023میں ترامیم کے بعد چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنے گی، کمیٹی میں 4 قومی اسمبلی، 2 سینیٹ سے ارکان ہوں گے جبکہ اپویشن اور حکومت کے ممبران برابر ہوں گے۔
کمیٹی چیئرمین پیمرا کے لیے ایک نام صدر کو تقرری کے لیے بھیجے گی، اگر پارلیمانی کمیٹی نام پر 30 دنوں میں اتفاق پر ناکام رہی تو وزارت اطلاعات پینل وزیراعظم کو ارسال کرے گا۔
وزیر اعظم چیئرمین پیمرا کے لیے مناسب نام تجویز کرکے صدر مملکت کو ارسال کرے گا، میڈیا ورکز کے لیے تنخواہ کے الفاظ کو واجبات سے تبدیل کر دیا گیا۔
اس سے قبل وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سنیٹ میں پیمرا ترمیمی بل آج دوبارہ پیش کردیا اور کہا کہ بل پڑھے بغیر جان بوجھ کر متنازع بنایا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سینیٹ کے اجلاس میں ایک بار پھر پیمرا ترمیمی بل جمع کرادیا۔
وفاقی وزیر نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بل پرمختلف صحافتی تنظیموں سےمشاورت ہوئی، اس بل میں صحافیوں کیلئے کم سے کم تنخواہ کا بھی تعین کیا گیا ہے، جو ادارہ 2 ماہ میں ادائیگیاں نہیں کرے گا حکومت اس کو اشتہار نہیں دے دی، بل پڑھے بغیر جان بوجھ کر متنازع بنایا گیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے منظورہوچکا ہے، بل سینیٹ میں آیا اور پھر یہ قائمہ کمیٹی میں گیا، اور کمیٹی اجلاس میں رائے آئی کہ چیرمین پیمرا کی تعیناتی پارلیمنٹ کرے، میں نے کمیٹی اجلاس میں کہا اگرکوئی ترمیم ہے تو ہمیں دی جائے، کمیٹی اجلاس میں ترامیم تو نہ آئیں لیکن سوشل میڈیا پر میری ذات پرتنقید کی گئی، یہ بل حکومت نے ضرور موو کیا لیکن یہ بل میڈیا انڈسٹری کا ہے، مس انفارمیشن اورڈس انفارمیشن کی تشریح کیلئے مختلف 12 ممالک سے مدد لی گئی ہے۔
پارلیمنٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پیمرا بل میں چیئرمین پیمرا کے کالے اختیار ختم کیے، بل میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تشریح تھی، اور یہ بھی تھا کہ جہاں کیس ہوگا ادھر ہی پٹیشن ہوگی۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمران ترمیمی بل پر 12 ماہ کام کیا، اداروں کو قانون کے دائرے میں لے کر آئی، لیکن کہا گیا کہ یہ کالا قانون ورکرز کے خلاف ہے، میں نے کہا کہ ترمیم سے بہتری آسکتی ہے تو ترمیم کریں، کہا گیا کہ نگراں حکومت میں صحافیوں کے گلے دبائے جائیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ مجھے 10،10 بار فون کر کے پوچھا جاتا ہے کہ خبر درست ہے، کیا یہ لوگ ڈس انفارمیشن پھیلائیں گے، ورکرز کے لیے یہ بل آج سینیٹ میں پیش کروں گی۔