بھارتی ریاست ہریانہ میں فسادات کے بعد مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیے گئے تھے جس پر ہائیکورٹ نے گھر مُنہدم کرنے پر نسل کشی کا سوال اٹھا دیا۔
غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ہائیکورٹ نے کہا کہ ہریانہ میں مسلمان کے گھروں اور کاروبار کو منہدم کرنا یہ نسل کشی کی ایک مشق تھی۔
پنجاب اور ہریانہ کی ہائیکورٹ نے پیر کو ریاست کے ضلع نوح میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو منہدم کرنے کو چار دن تک روکتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ امن و امان کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ ایک خاص طبقے کی عمارتوں کو منہدم کیا جارہا ہے، یہ ریاست کی جانب سے نسل کشی کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی ریاست ہریانہ میں 2 مسلمان زندہ جلا دیے گئے
جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی بنچ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ریاستی حکام کی جانب سے قانونی طور پر قائم کردہ طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر اور جائیداد کے مالک افراد کو کوئی پیشگی نوٹس جاری کیے بغیر انہدام کی مہم چلائی ہے۔
ہریانہ میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے ریاست کے واحد مسلم اکثریتی ضلع نوح میں سینکڑوں مکانات، دکانیں اور جھونپڑیوں کو مسمار کردیا۔
مزید پڑھیں: ہریانہ فسادات کے دوران بھارتی انتہا پسندوں نے مسجد کو آگ لگادی، امام شہید
گزشتہ ہفتے ہریانہ میں تشدد اس وقت شروع ہوا، جب انتہا پسند ہندو گروپوں نے ضلع نوح میں ایک جلوس نکالا تھا۔ گھروں کو منہدم کرنے کے علاوہ پولیس نے 150 سے زائد افراد کو بھی گرفتار کیا، جس میں “تقریباً مسلمان شامل تھے۔
نوح کے رہائشیوں نے بتایا کہ جلوس میں شریک لوگ جو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور اس کی یوتھ ونگ، بجرنگ دل، لاٹھیوں، تلواروں اور حتیٰ کہ بندوقوں سے لیس تھے اور اشتعال انگیز مسلم مخالف نعرے لگا رہے تھے، انہوں مسلمانوں کے محلے میں مارچ کیا۔
مزید پڑھیں: تمہارے پُھپھا زندہ ہیں: 102 سالہ ”مردہ“ بھارتی شخص نے شادی رچالی
واضح رہے کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل دونوں پورے ملک میں سینکڑوں چھوٹے اور بڑے ہندو گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، ان کو“سنگھ پریوار“ (متحدہ خاندان) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی سربراہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کرتی ہے، موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے نظریاتی سرپرست ہیں۔