Aaj Logo

اپ ڈیٹ 08 اگست 2023 05:38pm

رضوانہ تشدد کیس: ’بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی ہی نہیں، یہ الزام ہے‘

رضوانہ تشدد کیس میں جج کی اہلیہ اور ملزمہ صومیا عاصم کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ بچی ان کے ہاں ملازمہ نہیں تھی، یہ ایک الزام ہے۔ دوسری طرف جج کی اہلیہ کی جانب سے ایک بار پھر درخواست ضمانت دائر کردی گئی ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی جس میں سول جج کی اہلیہ صومیا عاصم کو ڈیوٹی مجسٹریٹ شائسہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

واضح رہے کہ ملزمہ صومیا عاصم کو پیر کو ضمانت خارج ہونے پر عدالت کے باہرسے گرفتار کیا گیا تھا، تاہم ملزمہ نے ایک بار پھر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں درخواست ضمانت دائر کردی۔ آج جمع کرائی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔

جج شائستہ خان نے ریمارکس دیے کہ قانون خاتون ملزم کو صرف قتل اور اقدامت قتل مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے، اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے بچی کو دی جانے والی اجرت کے حوالے سے رسیدیں حاصل کرنی ہیں۔

جج کا کہنا تھا کہ آپ نے اگر ویڈیو ہی لینی ہے تو سیف سٹی سے ویڈیو لے لیں، میڈیا ہائپ کی بنیاد پر تو جسمانی ریمانڈ نہیں دے سکتی۔

دوران سماعت وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ ہمارے خلاف الزام ہے کہ بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی، بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی ہی نہیں، یہ الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ملازمہ تشدد کیس، سول جج کی اہلیہ شامل تفتیش، صحت جرم سےانکار

رضوانہ تشدد کیس پر جے آئی ٹی تشکیل، کسٹڈی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کےسپرد

اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن بچی کو مار پیٹ نہیں کی، سول جج عاصمحفیظ

خیال رہے کہ ملزمہ صومیا عاصم کی جانب سے ضمانت کی درخواست میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بچی رضوانہ ان کے گھر کی ملازمہ تھی اور اسے صحیح سلامت والدہ کے حوالے کیا تھا۔

تعاون کیلئے تیار ہوں، میرے تین بچے ہیں، اس طرح کا ٹارچر نہ کیا جائے: ملزمہ صومیا عاصم

صومیا عاصم نے روسٹرم پر آکر آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ ہرطرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں، میرے تین بچے ہیں، اس طرح کا ٹارچر نہ کیا جائے، انہوں نے رات ساڑھے 11 بجے مجھے بلا کر مینٹل ٹارچر کیا ہے، اس دوران تفتیشی افسر بھی ساتھ بیٹھے تھے۔

ملزمہ کے الزام پر وضاحت دیتے ہوئے تفتیشی افسر نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

صومیا عاصم نے مزید کہا کہ مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا جارہا، گھر میں کیمرے لگے ہیں، پولیس فوٹیجز خود نکلوا لے، میرا جتنا میڈیا ٹرائل ہوا، مجھے خود کشی کرلینی چاہیے، باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جارہی ہیں۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ 2 دن کا ریمانڈ کیوں مانگ رہے ہیں؟ آپ نے کل سے اب تک کیا کیا؟ جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس میں مزید تفتیش کیلئے ریمانڈ حاصل کر رہے ہیں، البتہ ہم نے کافی شواہد حاصل کرلیے ہیں۔

جج شائستہ خان نے کہا کہ آپ خود ہی تسلیم کر رہے ہیں کہ کافی شواہد حاصل ہوچکے، اب ریمانڈ کیوں چاہیے۔

جج شائستہ خان نے ملزمہ صومیا کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے صومیا عاصم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور پولیس کو انہیں 22 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کمسن ملازمہ تشدد کیس میں مرکزی ملزمہ صومیا عاصم نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائرکردی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد، مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، رضوانہ والدین کی اجازت سے سومیا عاصم کے گھر رہائش پذیر تھی۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ صومیا عاصم کا رضوانہ کے ساتھ رویہ ایسا ہی تھا جیسا ان کے اپنے بچوں کے ساتھ تھا، صومیا عاصم کیخلاف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

درخواست کے مطابق سومیا عاصم پڑھی لکھی،عزت دار اور شائستہ خاتون ہیں، مقدمے میں غلط طریقے سے شامل کیا گیا، ایسے کوئی شواہد نہیں جو صومیا عاصم کو لگائے گئے الزامات سے جوڑ سکیں۔

سومیاعاصم کی درخواست ضمانت پر جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے 10 اگست کو دلائل طلب کرلیے۔

Read Comments