تین وفاقی وزراء نے ان خدشات کی تصدیق کردی ہے کہ عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔
انتخابات میں تاخیر سے متعلق تشویش مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے 2023 کی مردم شماری کے نتائج کی متفقہ منظوری کے بعد پیدا ہوئی تھی۔
سی سی آئی کے 5 اگست کے فیصلے نے اس امکان کو بڑھا دیا ہے کہ حکومت رواں سال انتخابات میں تاخیر کرے گی جس کی وجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حلقہ بندیوں کے لیے درکار ’وقت‘ کو قراردیا گیا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ‘ میں شریک وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عندیہ دیا کہ عام انتخابات جنوری 2024 تک ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا، سی سی آئی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی،کسی سیاسی جماعت نے اس کی مخالفت نہیں کی۔فیصلہ اکثریت سے ہوتا ہے، دو ارکان مخالفت بھی کریں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں صرف سیاسی بیانات ہیں، الیکشن میں 90 روز کے بعد 35 سے 45 دن کا فرق تو آسکتا ہے، لیکن الیکشن60 دن سے زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔
یہ بات انہوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ اور محسن داوڑ کی جانب سے مردم شماری میں دکھائے گئے اعداد و شمارپر تحفظات سے متعلق سوال کے جواب میں کی۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے عام انتخابات ہوجائیں گے۔
وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی عام انتخابات میں ایک سے دو ماہ تک کی تاخیر کا خدشہ ظاہرکیا۔
امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نومبر میں انتخابات ہوجائیں گے۔ انتخابات میں ایک سے دو ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں۔
وزیردفاع نے کہا کہ قومی اسمبلی9 اگست کی شام تک تحلیل کردی جائے گی جسکے بعد آئین کے تحت 90 روز میں انتخابات ضروری ہیں۔ مخصوص حالات میں الیکشن کمیشن ایک سے 2 ماہ کی تاخیر کرسکتا ہے لیکن اس سے تاخیرنہیں ہوسکتی۔
دوسری جانب جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں شریک وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء کا کہنا تھا کہ اگر نئی حلقہ بندیاں ہوئیں تو فروری کے تیسرے ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 90 کے 120 دن ہوئے ہیں تو آئینی دلیل موجود ہے، آئین میں درج ہے کہ ایک مردم شماری پر2 الیکشن نہیں ہوں گے، آئین کہتا ہے کہ مردم شماری نوٹیفائی ہوجائے تو حلقہ بندیاں ضروری ہیں جو آئینی ضروریات ہیں، اس مردم شماری پربہت زیادہ اعتراضات تھے۔
خدشہ پایا جاتا ہے کہ عام انتخابات میں مارچ تک کی تاخیر ہوگی جب سینیٹ اپنی مدت پوری کرے گی۔ اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد قومی اسمبلی سے متعدد ارکان کے استعفوں کے باوجود پی ٹی آئی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔
ماہرین نے حکومت کی جانب سے آئینی مدت سے قبل اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ یہی قدم پی ٹی آئی کے سربراہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اٹھایا تھا جس کی حکمران اتحاد نے مخالفت کی تھی۔