افغان وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد نے کہا ہے کہ اگر بیرون ملک حملے کیے گئے تو وہ جہاد نہیں بلکہ جنگ ہوگی، افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللّٰہ اخوندزادہ نے بیرون ملک حملوں کو روک دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغانستان کے وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد نے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان سے ایک تقریر میں کہا کہ افغانستان سے باہر لڑائی مذہبی طور پر منظور شدہ جہاد نہیں، بلکہ جنگ ہوگی۔
یعقوب مجاہد کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللّٰہ اخوندزادہ نے بیرون ملک حملوں کو روک دیا ہے۔
افغان وزیر دفاع نے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حوالے سے کہا کہ اگر کوئی جہاد کے مقصد کے لیے افغانستان سے باہر جاتا ہے تو اسے جہاد نہیں کہا جائے گا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ اگر امیر المجاہدین جنگجوؤں کو جنگ میں جانے سے روکتے ہیں اور وہ پھر بھی ایسا کرتے ہیں تو یہ جہاد نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ دنوں باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن میں خودکش حملے میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئی تھیں۔
پاکستانی سول و عسکری قیادت کو ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر پر شدید تشویش ہے۔
پاکستانی حکام کئی بار یہ معاملہ افغان حکام کے ساتھ اٹھا چکے ہیں۔ ایسے وقت میں افغان سپریم لیڈر کی جانب سے بیرون ملک حملوں کو روکنے کے بیان کو خطے کی سکیورٹی میں اہم پیشرفت تصور کیا جارہا ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق افغانستان کے حکمراں طالبان کے سپریم لیڈر نے سرحد پار حملوں بشمول پاکستان پر ہونے والے حملوں کو ’حرام‘ قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکا نے اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے سینئر رہنماؤں نے حالیہ دو طرفہ مذاکرات کے دوران پاکستانی حکام کو ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے جاری کردہ ’فرمان‘ سے آگاہ کیا۔
افغان سپریم لیڈر کے فرمان کے مطابق کسی کو بھی افغان سرزمین سے دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وائس آف امریکا کے مطابق افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے آصف درانی اور ان کے وفد کی گزشتہ ماہ دارالحکومت کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سمیت دیگر کے ساتھ ہونے والی تین روزہ ملاقاتوں میں یہ معاملہ نمایاں طور پر اٹھایا گیا تھا۔
پاکستانی وفد کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے زیادہ تر تشدد کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری قبول کی۔