مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی مردم شماری کی اجازت دیے جانے پر گفتگو کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں صوبوں کی قومی اسمبلی میں نشستیں کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں۔
آج نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف اور سنئیر صحافی طارق چوہدری کا کہنا ہے کہ صدر مملکت سب سے پہلے نوٹیفائی کریں گے کہ ملک کی آبادی کتنی ہے، سارے اعدادوشمار شائع کئے جائیں گے، اس کے بعد ادارہ شماریات مردم شماری کے نتائج الیکشمن کمیشن کو بھیجے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مردم شماری سے پتا چلے کہ ہماری آبادی 24 کروڑ ہوگئی ہے تو اس سے ہماری ڈیموگرافی پر ضرور فرق پڑتا ہے، مختلف شہروں اور آبادیوں پر فرق پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر فرق قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پڑتا ہے۔
طارق چوہدری کا کہنا تھا کہ کسی صوبے کی آبادی کم یا زیادہ ہونے پر اس کی حلقہ بندیاں متاثر ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو 120 دن نئی حلقہ بندیوں میں لگتے ہیں کیونکہ اس کا بڑا لمبا پراسیس ہوتا ہے۔ ایک حلقہ بھی تبدیل کیا جائے تو پورے ملک کے حلقوں کی جغرافیائی پوزیشن تبدیل ہوجاتی ہے۔
طارق چوہدری کے مطابق اگر 9 اگست کو اسمبلایں تحلیل ہوتی ہیں تو نئے انتخابات 5 یا 6 اکتوبر کو ہوسکتے ہیں، اس میں مزید ایک مہینہ تک تاخیر مختلف وجوہات کی بنا پر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی اس وقت نشستیں 342 ہیں، اس میں کمی بیشی ہوئی تو کہا جارہا ہے کہ پنجاب کی سیٹیں کم ہوسکتی ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ نگراں وزرائے اعلیٰ کا مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھنا غیرآئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی صوبے کی سیٹیں بڑھتی ہیں تو اس کیلئے آئینی ترمیم کرنی ہوگی، بلوچستان کی آبادی بڑھتی ہے تو قومی اسمبلی میں اس کی 8 سے 10 سیٹیں بڑھ جائیں گی۔
عاطد زبیری کے مطابق الیکشن کمشنر مشترکہ مفادات کونسل کے حکم کے پابند نہیں ہیں، انہیں 90 دن میں الیکشن کرانے ہیں، اگر وہ الیکشن نہیں کراتے تو وہ آئین شکنی کریں گے۔
سینئیر صحافی شوکت پراچہ کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری ہوگی تو آئین کے مطابق نئی حلقہ بندیاں بھی ہوں گی، اب وقت پر انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں اب نیا تنازعہ جنم لے گا۔