بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) جنوب میں بھارت کے معروف آٹو موبائل حب میں سے ایک ’مانیسر‘ واقع ہیں، جہاں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ہزاروں ورکرز دھول بھری اور بھیڑ بھاڑ والی بھولبلیاں جیسی گلیوں سے نکل کر قریبی کارخانوں کی جانب چل پڑتے ہیں۔
بھارت میں تقریباً 3.7 ملین افراد آٹوموبائل انڈسٹری سے منسلک ہیں جو مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 7.1 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے۔
صرف مانیسر اور گروگرام میں تقریباً 80 ہزار ورکرز ہیرو موٹو کارپوریشن، ماروتی سوزوکی، یاماہا، اور دیگر عالمی کمپنیوں کے مختلف آٹوموبائل یونٹوں میں کام کرتے ہیں۔
انہی ورکرز میں سے ایک 20 سالہ منیش کمار کی دو انگلیاں کار کی کھڑکیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی پاور پریس مشین ہاتھ پر گرنے سے ضائع ہوگئی تھیں۔
منیش نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں اپنے خاندان کی کفالت اور بہتر مستقبل کے لیے ہزاروں دوسرے کارکنوں کی طرح مانیسر آیا ہوں۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ یہ جگہ مجھے زندگی بھر کیلئے کسی کا محتاج بنا دے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہے اور جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کے ہاتھ کو کیا ہوا تو میں صدمے سے دوچار ہو جاتا ہوں اور اسی وجہ سے میں اکثر اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہوں۔
منیش کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے 13 ہزار بھارتی روپے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فیکٹری مالکان کو ہماری حفاظت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ان کا بنیادی ایجنڈا ہے کہ پروڈکشن کسی بھی قیمت پر بند نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں جس مشین پر کام کر رہا تھا وہ ایک ہفتے سے خراب تھی، پھر بھی اس کی مرمت کرنے کے بجائے مجھے اس پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے مشین نے میری دو انگلیاں کچل کر پاؤڈر میں تبدیل کر دیں۔
منیش اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کی طرح بھارت میں اس شعبے میں کام کرتے ہوئے ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
سیف اِن انڈیا فاؤنڈیشن (ایس آئی آئی) کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ ”کرشڈ“ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مانیسر اور گڑگاؤں کے علاقوں میں پھیلی آٹوموبائل فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے روزانہ اوسطاً 20 کارکن اپنے ہاتھ یا انگلیاں کھو دیتے ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل فیکٹری ایڈوائس سروس اور لیبر انسٹی ٹیوٹ (DGFASLI) کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں آٹوموبائل مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 2020 میں 1,050 اموات سمیت زخمی ہونے کے 3,882 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے لیبر ماہر پروفیسر پربھو موہا پاترا کا کہنا ہے کہ بھارت کی صورت حال ”عجیب و غریب“ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑی فیکٹریوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کا عملہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین پر مشتمل ہے جو ان قوانین کے تحت محفوظ نہیں ہیں۔
چھوٹی فیکٹریوں کے معاملے میں، معائنہ یا قواعد کے اطلاق کا کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ 10، 20 یا 30 سے کم مزدوروں والی فیکٹریوں میں پیشہ ورانہ یا حفاظتی ضوابط لاگو نہیں ہوتے ہیں۔
بڑی فیکٹریوں کے لیے زیادہ تر مینوفیکچرنگ چھوٹی فیکٹریاں کرتی ہیں۔ یہ فیکٹریاں کچے یا غیر ہنر مند مزدوروں کو ملازمت دیتی ہیں، کم از کم اجرت ادا کرتی ہیں اور انہیں زیادہ گھنٹے کام کرواتی ہیں۔
موہا پاترا نے کہا کہ یہ چھوٹی فیکٹریاں مکمل طور پر غیر منظم ہیں اور اس کے نتیجے میں شاذ و نادر ہی کسی حادثے کی اطلاع ملتی ہے۔
موہا پاترا کے مطابق ایک اور اہم عنصر یہ ہے کہ زیادہ تر کارکن تارکین وطن مزدور ہیں جن کے پاس سپورٹ نیٹ ورک نہیں ہے اور وہ استحصال کا زیادہ شکار ہیں۔
ہریانہ کے شہر مانیسر میں واقع ایک فیکٹری میں موٹر سائیکل کے اسپیئر پارٹس بنانے کے دوران 23 سالہ شیو پوجن کے دونوں ہاتھ پاور پریس مشین کے نیچے کچل گئے تھے۔
شیو پوجن کا تعلق پڑوسی ریاست اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے، جنہوں نے دسمبر 2022 کے آخر میں مانیسر میں 10,000 روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک ٹو ویلر بنانے والی فیکٹری میں نوکری اختیار کی۔
اسے صرف بنیادی تربیت کے بعد ایک جوڑے دستانے پہن کر پریس مشین چلانے کو کہا گیا اور دو ماہ بعد اس کے دونوں ہاتھ اسی مشین کے نیچے کچلے گئے۔
شیو نے بتایا کہ ’میں تھکا ہوا تھا اور نیند سے بھرا ہوا تھا، کیونکہ میں 12 گھنٹے سے زیادہ کام کر رہا تھا، جب لوہے کی چادر کی بجائے میرے ہاتھ طاقتور مشین کے نیچے آگئے۔ مجھے جو یاد ہے وہ بس یہ کہ دستانے سے خون بہہ رہا تھا اور ساتھی کارکن میری طرف بھاگ رہے تھے۔ پھر اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔‘
شیو نے کہا کہ کیا یہ زندگی بھی جینے کے قابل ہے جہاں میں ہر چیز کے لیے کسی پر انحصار کروں؟ کیا اس سے موت بہتر نہیں؟’
دوسری جانب ماروتی سوزوکی کے ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اپنے کارکنوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھاتی ہے اور SII کے دعووں سے متفق نہیں ہے۔