آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی ٹیم نے جمعہ 4 اگست کی صبح اتر پردیش کے وارانسی میں گیان واپی مسجد کے احاطے میں سخت سیکورٹی کے درمیان کمپلیکس کا سائنسی سروے شروع کردیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات3 اگست کو گیان واپی مسجد کے سائنسی سروے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اے ایس آئی کو سروے کرنے کی اجازت دی تھی، جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا 17 ویں صدی کی مسجد کسی ہندو مندر کے پہلے سے موجود ڈھانچے پر تعمیر کی گئی تھی یا نہیں۔
گیان واپی مسجد کے سائنسی بنیادوں پرسروے کا فیصلہ بنارس کی ضلعی عدالت نے سُنایاتھا جس کے بعد مسجد انتظامیہ نے یہ فیصلہ الہٰ آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے وارانسی ضلع عدالت کے حکم کو برقرارکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ مجوزہ قدم ”انصاف کے مفاد میں ضروری ہے“ اور اس سے دونوں فریقین کو فائدہ ہوگا۔
سروے کا آغاز ہوا تو ضلعی انتظامیہ کے مقرر کردہ لوگ احاطے میں موجود تھے۔ انجمن انتظاریہ مسجد کمیٹی کے اراکین نے سروے کا بائیکاٹ کیا۔
ہندو فریق سے تعلق رکھنے والے سوہن لال آریہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سروے کے دوران احاطے کے اندر شیو اور پاروتی کے مجسمے ، ورہا (وشنو کا سور اوتار) کا مجسمہ ، گھنٹیاں ، تریشور اور بہت سے دیگر ثبوت ملے تھے جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جگہ مندر ہے۔
بی جے پی رہنماؤں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقام پر مندر کے بارے میں ”سچائی“ اب سامنے آئے گی۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ، ’یہ ہم ہندوستانیوں کیلئے ایک اچھا فیصلہ ہے، یہ وہ چیز ہے جو امید پیدا کرتی ہے۔ وقت لگتا ہے لیکن سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے‘۔
آرکیالوجیکل سروے کے ماہرین مسجد کے در و دیوار ، بنیادوں اور تعمیرات کا جائزہ لے کر یہ بتائیں گے کہ صدیوں پرانی یہ مسجد آیا ہندو مندر توڑ کر بنائی گئی تھی یا کچھ حصے کی تعمیر نو کر کے اسے مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا یا پھر یہ ابتدا سے ہی ایک مسجد تھی۔
قانونی ماہرین کے مطابق اِس فیصلے کے بعد متھرا کی عید گاہ، قطب مینار، تاج محل اور بہت سی دیگر مسلم عمارتوں، عبادت گاہوں اور مقبروں پر ہندوؤں کے دعوؤں کا قانونی راستہ ہموار ہو جائے گا۔
سال 1991 میں اس وقت کےبھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ایودھیا جیسے مذہبی تنازعات روکنے کیلئے ’عبادت گاہ تحفظ‘ ایکٹ کی منظوری دی تھی۔ جس کے تحت بھارت میں میں جو عبادت گاہ جس شکل میں موجود تھی اسی میں حتمی طور پر تسلیم کی گئی جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم اس وقت بابری مسجد کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا کیونکہ کیس کئی سال سے زیرسماعت ہونے کے باعث فیصلہ عدالت پر چھوڑا گیا تھا۔بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کوشہید کردیا گیا تھا ۔
حالیہ برسوں میں بھارتی کی مقامی عدالتوں میں بنارس اور متھرا کی مساجد سے متعلق ہندو فریقین کے دعوؤں کی درخواستیں سماعت کیلئے قبول ہونا اس ایکٹ پر سوالیہ نشان لگاتا ہے کیونکہ توقع کی جا رہی تھی کہ عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کے بعد بابری مسجد جیسا دوسرا تنازع پیدا نہیں ہو گا۔
گیان واپی مسجد جیسی نوعیت کے مقدمے عیدگاہ مسجد کے سلسلے میں متھرا کی مقامی عدالت میں بھی زیر سماعت ہیں۔ ہندو فریقین نے قطب مینار کے بارے میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے ، وہ اس مینار کو ’وشنو دھوج‘ کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے مینار کے اطراف میں وشنو اورجین مندروں کے ستون اور آثار واضح طور پر موجود ہیں، اس لیے یہ انہیں دیا جائے۔
آگرہ کی پہچان تاج محل کے حوالے سے بھی ایسی درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں۔ ہندوتاج محل کو ’تاجو مہالے‘ مندر مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی مورتیاں توڑکر ہٹا دی گئیں اور ان کی جگہ عمارت تعمیر کی گئی، تاہم مقامی عدالت نے درخواست مسترد کردی تھی۔
لیکن اب گیان واپی مسجد کے سائسنسی جائزے کے فیصلے کے بعد ایسے دعوؤں کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ہے۔