Aaj Logo

شائع 03 اگست 2023 09:10pm

پاکستان میں انتخابات پر خونریزی سے خدشات بڑھ گئے، فارن پالیسی میگزین

حال میں ہی خیبر پختونخوا کے شہر باجوڑ کے صدر مقام خار میں خود کش دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں جے یو آئی خار کے امیرمولانا ضیااللہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکٹری مولانا حميد الله سمیت 63 سے افراد جاں بحق اور200 کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔

فارن پالیسی میگزین نے دھماکے کا ذکرکرتے ہوئے لکھا کہ اس کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ خراسان نے قبول کی ہے، جو بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان میں سرگرم ہے۔

رپورٹ میں بتایا کہ 2014 میں تقریباً ایک دہائی کی دہشت گردی کے بعد پاک فوج نے ملک کے شمال مغرب میں عسکریت پسندی کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔

دو سال قبل جب سے طالبان نے پڑوسی ملک افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے، تو پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

طالبان کی حکومت نے افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں اور انہیں پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کی ترغیب دی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جوکہ افغان طالبان سے الگ ہے لیکن نظریاتی طور پر اس سے منسلک ہے۔ اس نے 2007 سے پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملے کیے ہیں۔

پھر2014 کے کریک ڈاؤن کے بعد سے ٹی ٹی پی نے بنیادی طور پر پولیس اور فوجیوں پر حملہ کیا، بڑی حد تک شہریوں کو ہدف بنانے سے گریز کیا۔

ٹی ٹی پی کی طالبان افغانستان میں قبضے کے بعد حوصلہ افزائی ہوئی ہے لیکن اس میں پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت نہیں ہے، تو یہ ریاستی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔

ٹی ٹی پی کی وجہ سے اسلامک اسٹیٹ خراسان چھائی رہی، جو 2015 میں باضابطہ طور پر قائم ہوئی تھی اور باقاعدگی سے عام شہریوں کوٹارگٹ کرتی تھی، اسلامک اسٹیٹ خراسان زیادہ تر حملے افغانستان میں کرتی ہے لیکن اس نے باجوڑ کے حملے سمیت پاکستان میں بھی حملہ کیا ہے۔

اسلامک اسٹیٹ نے پاکستانی تاریخ کے خطرناک ترین بم دھماکوں میں سے ایک کا بھی دعویٰ کیا ہے،2018 میں کیا جانے والا دھماکا صوبہ بلوچستان میں ہوا تھا، جس میں 149 افراد ہلاک ہوئے اور ایک سیاسی مہم کی تقریب کو بھی نشانہ بنایا۔

اس گروپ کا مقصد افغانستان میں اپنے طالبان حریف پر حملہ کرکے اور ان کے ساتھ منسلک گروپوں کو نشانہ بنا کرکمزور کرنا ہے۔ ایسا ہی ایک گروپ جمعیت علمائے اسلام ف ہے، جو کہ اسلامی جماعت ہے جس نے باجوڑ میں جلسہ کیا تھا۔

اسلامک اسٹیٹ خراسان نے ممکنہ طور پر اس گروپ کو دو وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا، جمعیت علمائے اسلام ف طالبان کی حمایت کرتی ہے اور یہ اپنی سخت گیر مذہبی اور سماجی پوزیشنوں کے باوجود انتخابات میں حصہ لے کر جمہوریت کو بھی قبول کرتی ہے۔ جے یو آئی ف کے سرکردہ رہنما فضل الرحمان اسلام آباد میں حکمران اتحاد کے رکن ہیں۔

دہشت گردی کے حملوں میں مجموعی طور پر اضافے پر پاکستانی حکومت کا ردِعمل ناگوار ہے۔ یہ گزشتہ سال ٹی ٹی پی کے ساتھ دیرپا جنگ بندی پر بات چیت کرنے میں ناکام رہا۔ پاک فوج نے افغان سرحد کے قریب محدود کارروائیاں کی ہیں لیکن باضابطہ کارروائی نہیں کی ہے۔

رواں سال کے آخر میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی ریلیاں عسکریت پسند کا ممکنہ اہداف ہوسکتی ہیں۔ باجوڑ کا حملہ پاکستان میں الیکشن سے متعلق پہلا دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا اور نہ ہی سب سے مہلک حملہ تھا۔

اس سے قبل 2013 کی انتخابی مہم کے دوران انتخابات کے دن تک کے تین ہفتوں میں 119 سے زیادہ حملے ہوئے، پاکستان نے کبھی بھی دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے عام انتخابات ملتوی نہیں کیے۔ سویلین اور فوجی قیادت اس حق میں نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان اقتدار میں واپس آئیں۔

فرض کرتے ہیں عمران خان کو انتخابات کے دن عوامی عہدے سے نااہل نہیں کیا گیا، تو اس وقت کی موجودہ حکومت انتخابات ملتوی کرنے کے مزید تشدد کا سہار لے سکتی ہے۔ جس کے بعد عمران خان کے حامیوں کی طرف سے احتجاج کو تیز کر سکتے ہیں اور جس کا عسکریت پسند فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

Read Comments