Aaj Logo

اپ ڈیٹ 03 اگست 2023 06:42pm

توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت کل تک ملتوی، چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہلی کا خدشہ

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کردیا، عدالت نے کیس کی سماعت ہائیکورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے کے باعث کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ٹرائل روکنے کی کوئی ہدایت نہیں کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نیازاللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ ہم ہائیکورٹ میں موجود تھے، میڈیا بھی وہاں موجود تھا۔ عدالت نے سب کے سامنے کہا کہ ساڑھے 3 بجے تک ٹرائل کورٹ کو روکیں۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کوئی حکم امتناع نہیں دیا، جس پر نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ امجد پرویز جو دلائل دے رہے ہیں وہ سننے کے لیے خواجہ حارث بھی موجود نہیں، درخواست ہے کہ ساڑھے 3 بجے خواجہ صاحب آجائیں گے، اس کے بعد سماعت کریں۔

جج ہمایوں دلاور نے امجد پرویز کو دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت فیصلہ محفوظ نہیں کر رہی لیکن دلائل سنے جائیں گے۔

وکیل امجد پرویز نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں جمع چیئرمین پی ٹی آئی کی اثاثوں کی تفصیلات پڑھیں اور مؤقف اپنایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور اہلیہ کے اثاثوں میں نہ تو کوئی گاڑی، نہ زیورات ڈکلیئر کیے گئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے 300 مرلہ کے گھر اور دیگر اثاثوں کی کل مالیت صرف 5 لاکھ لکھی گئی ہے۔ انہوں نے 4 بکریاں 2 لاکھ کی ڈکلیئر کی ہوئی ہیں، یہ تو ان کے ڈکلیئر اثاثوں کی تفصیلات کی صورتحال ہے، ان کے پاس نہ تو کوئی گاڑی، نہ جیولری ہے، باقی تمام گھروں، زمین، فرنیچر کی مالیت صرف 5 لاکھ روپے لکھی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے، توشہ خانہ تحائف سے زیادہ بڑی بات ان کے دیگر اثاثوں کی تفصیلات ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں، 3 سو کنال کے گھر میں چلنے کے لیے گاڑی چاہیئے ہوتی ہے، 107 ملین کے توشہ خانہ تحائف ہیں جو اس کیس میں زیر بحث ہیں، توشہ خانہ تحائف انہوں نے بطور وزیر اعظم 25 فیصد قیمت پر حاصل کیے، استغاثہ کا کیس یہ ہے کہ یہ حاصل شدہ تحائف اثاثوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے 4 بکریاں تو ہر سال ڈیکلیئر کیں، گاڑیاں، جیولری، تحائف ڈیکلیئر نہ کیے، یہ تحائف حاصل کرنے کو مانتے ہیں، انکار نہیں کرتے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے تحائف 58 ملین روپے میں بیچ دیئے۔ ان کا دفاع ہے کہ انہوں نے تحائف بیچ دیئے اور 30 جون 2019 کو تحائف ان کے پاس نہیں تھے اس لیے انہوں نے اپنے اثاثوں میں ڈیکلیئر نہیں کیے۔ انہیں یہ تفصیلات میں بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے 107 ملین کے تحائف 58 ملین روپے میں بیچ دیئے۔

امجد پرویز کے دلائل کے دوران نیاز اللہ نیازی نے ایک بار پھر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دلائل سننے سے نہیں روکا۔ عدالت اپنی کارروائی آپ کی منشا پر تو نہیں چلا سکتی۔

نیاز اللہ نیازی نے مؤقف اپنایا کہ خواجہ حارث کی موجودگی میں دلائل سنے جائیں۔

عدالت نے نیاز اللہ نیازی کی درخواست پر سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کی معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل مکمل ہو چکے ہیں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔

عدالت نے ہائیکورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد سماعت جمعے کے روز تک کے لیے ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعت

گزشتہ روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے آج جمعرات 3 اگست کو کو فریقین سے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرحتمی دلائل نہیں دیتے توکیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا ۔

عدالت نے کل بدھ 2 اگست کو ہونے والی سماعت میں قرار دیا تھا کہ عمران خان اپنی جانب سے پیش کیے گئے گواہوں کا کیس سے تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے ان گواہان کو بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عمران خان کے وکیل نے 4 گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی تھی، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ہمایوں دلاور نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل گوہرعلی نے اقرارکیا کہ چاروں گواہ ٹیکس کنسلٹنٹ یا اکاؤنٹنٹ ہیں۔ عدالت نکم ٹیکس کا کیس دیکھ رہی ہےنہ ہی چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف شکایت انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت درج کی گئی۔ چونکہ شکایت الیکشن ایکٹ کے تحت درج ہے اس لیے ان گواہوں کا گواہان کا کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور اسی بنیاد پربیانات ریکارڈ نہیں کروائے جا سکتے۔

سابق وزیراعظم اس کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی دو گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

عدالت کی جانب سے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ (جمعرات 3 اگست ) کیس کے حوالے سے حتمی دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی نے رات گئے ٹوئٹرپرجاری کیے جانے والے ویڈیو بیان میں کہا کہ توشہ خانہ کیس میں مجھے فیئر ٹرائل کے آئینی حق سے مسلسل محروم کیا جا رہا ہے اور اپنے دفاع میں گواہان تک پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

قوم کو پیغام جاری کرنے والے عمران خان نے کہا کہ اعلیٰ عدالتیں انصاف کے بہیمانہ قتل کی راہ روکنے کیلئے فوری مداخلت کریں۔ انہوں نے سیشن جج ہمایوں دلاور پرتحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان کی نااہلی کا منصوبہ تیارکیا گیا۔ جج سے انصاف کی توقع نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے سیشن کورٹ میں ہونے والی کارروائی رکوانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی جسے بدھ 2 اگست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ٹرائل رکوانے کی استدعا دوباہ مسترد کی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ، ’سپریم کورٹ سے مزید کیا ریلیف چاہتے ہیں۔۔ جو ریلیف آپ نے مانگا وہ ہم نے دے دیا تھا حیرت ہے آپ نے پھر بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔۔ ہوسکتا ہے ہائیکورٹ آپ کو ہم سے بہترریلیف فراہم کرے۔ پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں‘۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق چیئرمین پی ٹی آئی کی تین مختلف درخواست پر سماعت کررہے ہیں۔

ان میں ٹرائل روکنے ،کیس دوسری عدالت منتقلی اورعدالتی فیصلے کیخلاف درخواستیں شامل ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء خواجہ حارث اوربیرسٹر گوہر کے علاوہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویزایڈووکیٹ بھی عدالت میں موجود ہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نےٹرائل کورٹ میں اپنےدفاع میں گواہ پیش کرنے کیلئے فہرست دی، ٹرائل کورٹ نے اس درخواست کومسترد کردیا۔ یہ بھی کہا حتمی دلائل کے بعد آج ہی فیصلہ محفوظ کرلیاجائے گا۔ جب تک معاملہ ہائیکورٹ میں ہو فیصلہ کیسے سنایا جاسکتا ہے؟۔ اس سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ابھی جج سے متعلق ایف آئی اے کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یکطرفہ رپورٹ کوکیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ، ’میں ابھی صرف ایک بات آپ کے علم میں لایا ہوں۔ رپورٹ ڈسٹربنگ ہے،یہ اچھی بات نہیں کہ غلط طورپرجج سےمتعلق سب کچھ کہا گیا۔ آپ کی ایک درخواست ٹرائل کورٹ جج کےتعصب پرہے۔ آپ کہتےہیں روزانہ کی بنیاد پرسماعت جج کاتعصب ظاہرکرتاہے۔ معذرت کیساتھ آج کل ایک بحث عدالت میں ہوتی ہےدوسری شام کو اورافسوس کہ شام کوہونی والی بحث زیادہ اثرکرتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ یہاں عدالت میں زیادہ سےزیادہ 80 افراد موجود ہوتےہیں، شام کو جو کچھ ہوتا ہے اس کے ناظرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ زیرالتوا کیس پرکسی بھی فریق کوکوئی بات نہیں کرنی چاہئے۔

جواب میں چیف جسٹس ہائیکورٹ عامر فاروق نے کہا کہ میں الیکٹرانک میڈیا کی بات کررہا ہوں کہ آٹھ سے بارہ بجےتک کیاچلتاہے، آپ نے کافی سیاسی کیسز کیے مگر آٹھ بجے کسی چینل پر نہیں دیکھا۔ پرانے وقتوں میں تو کہتے تھے کہ ججز اخبارات بھی نا پڑھیں۔

اس پرخواجہ حارث نے کہا کہ کہ ،’جج کا یہ کام نہیں کہ وہ سوچے کہ فیصلے سے عوام کیا سوچے گی‘۔

سیشن کورٹ کےفیصلےکےخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پرسماعت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے۔

Read Comments