پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں لالا اسد پٹھان کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں صحافیوں کے قتل ، حملوں اور دھمکیوں کے 140 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو پچھلے اس سے پہلے کی نسبت 63 فیصد تک زیادہ ہیں۔ لیکن کیا حکومتی ادارے ان واقعات سدباب کیلئے سنجیدہ ہیں؟ کیا ادارے ان واقعات کی تحقیقات کر بھی رہے ہیں؟ اور کر رہے ہیں تو یہ تحقیقات کہاں پہنچیں؟
لالا اسد پٹھان پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے مرکزی رہنما ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا میں انتہائی خطرناک ترین ملکوں میں شامل ہے، یہاں اظہار آزادی پر ہتھکنڈے بنا کر ہر دور حکومت میں آواز کو دبانے کی سازشیں کی جاتی ہیں، خواہ وہ سنسرشپ ہو یا پھر صحافیوں کو مارنے، ان پر حملے اور دھمکیوں کی صورت میں ہو۔ یہاں آزادی رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے، آئے روز صحافی قتل ہوتے ہیں، جس کے بعد ظالم، قاتل، حکومتی اراکین ہوں یا پھر بیورو کریسی، ان کے ساتھ مل کر لین دین کرکے مقدمات کو کمزور کیا جاتا ہے جبکہ قتل ہونے والے کسی بھی صحافی کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا نہیں جاتا۔
لالا اسد پٹھان کہتے ہیں کہ پاکستان میں خاص طور پر آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو دبانے کے لیے حکومتی ریاستی اداروں کے عملداران ملوث نظر آتے ہیں۔ دو سال کے دوران دس سے زائد صحافی قتل ہوچکے ہیں جبکہ حملوں اور دھمکیوں کے 140 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن کے کیسز تاحال بھی سماعتوں کی نذر ہیں۔
اجے لالوانی قتل کیس میں سندھ پولیس نے عبوری چالان میں یونین کونسل صالح پٹ کے سابق چیئرمین اور وائس چیئرمین سید عنایت شاہ، احسان شاہ اور تھانہ صالح پٹ ضلع سکھر کے سابقہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عاشق میرانی کو ملزم قرار دیا ہے۔
صحافی اجے لالوانی قتل کیس کے نئے تعینات ہونے والے تفتیشی افسر (آئی او) ایس ایس پی کندھ کوٹ کشمور امجد شیخ نے سکھر کی مقامی عدالت میں عبوری چارج شیٹ جمع کرائی، جس میں انسداد دہشت گردی (7-ATA) کی دفعات بھی شامل ہیں۔ تاہم تینوں ملزمان سابق چیئرمین، وائس چیئرمین عنایت شاہ اور احسان شاہ اور ایس ایچ او عاشق میرانی تاحال بھی مفرور ہیں۔
اجے لالوانی قتل کیس کے نئے مقرر آئی او ایس ایس پی امجد شیخ نے بتایا کہ کیس کی حساسیت اور جرم کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور کیس کو مکمل طور پر میرٹ پر ختم کیا جائے گا۔ قانون کے مطابق اور کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی شخص کو نہیں بخشا جائے گا۔
اجے لالوانی کے والد دلیپ کمار نے بتایا کہ وہ کیس کی پیش رفت سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیس کے نئے آئی او ایس ایس پی امجد شیخ نے کیس میں بااثر افراد کے نام بطور ملزم شامل کر کے بہت اچھا کام کیا ہے، لیکن حتمی چالان سے ان کے نام نہ نکالے جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
سکھر یونین آف جرنلسٹ کے صدر امداد پھلپوٹو کا کہنا ہے کہ اجے لالوانی کے قتل کیس کے گواہ صحافی نریش کمار کی موٹر سائیکل 6 اکتوبر بدھ کو خیرپور کریم آباد نیشنل ہائی وے پر ٹرک ٹکرا گئی، جس کی وجہ سے وہ زخمی حالت میں جاں بحق ہوگئے۔
امداد پھپلوٹو کے مطابق نریش کی ہلاکت شبہ ظاہر کر رہی ہے، یہ قتل میں مطلوب ملزمان کی سازش ہوسکتی ہے۔
اسی طرح کا دوسرا واقعہ ضلع نوشہروفیروز کے شہر محراب پور میں پیش آیا تھا، جہاں ایک نہر سے ملنے والی لاش سندھی روزنامہ کاوش کا مقامی رپورٹر عزیز میمن کی نکلی تھی۔
عزیز میمن کو مبینہ طور پر گلہ دبا کر قتل کرکے لاش نہر میں پھینکی گئی۔ یہ واقعہ 14 فروری 2020 کو پیش آیا۔
اس دن صحافی عزیز میمن ضلع خیرپور میں کسی تقریب میں شرکت کرنے گئے تھے جہاں سے واپسی میں انہیں قتل کرکے لاش نہر میں پھینک دی گئی۔
محراب پور کے سینئیر صحافی عزیز میمن کے دوست اخلاق جوکھیو نے نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ عزیز میمن اچھے انسان اور بہترین صحافی تھے جو سیاست، انسانی حقوق، اور اپنے علاقے میں عوام کو درپیش مسائل پر رپورٹنگ کرتے تھے۔
اخلاق جوکھیو کے مطابق ان کا قتل پہلے سے کی گئی پلاننگ کے تحت کیا گیا۔
اس کیس کا مقدمہ 8 ملزمان پر درج ہوا مگر حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس اور حکمرانوں نے مل کر کیس دبا دیا۔
قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ دو برس گزر جانے کے بعد بھی صحافی عزیز میمن قتل کیس کا حل نہ ہونا باعثِ شرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ اگر تفتیش کو درست طریقے سے آگے نہیں بڑھایا جاسکا تو اس کیس کو کسی دوسرے صوبے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی بے نظیر آباد عرفان بلوچ نے قائمہ کمیٹی میں بتایا کہ مقتول صحافی کے قتل میں ملوث دو ملزمان اب تک گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعامی رقم مقرر کی گئی ہے۔
صحافت پر وار ہونے کے ساتھ اظہار رائے کو دبانے کا ایک واقعہ بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
سندھ میں صحافی ، سوشل ایکٹویسٹ یا عام آدمی کسی بھی بااثر ادارے کے خلاف تھوڑی بھی آواز بلند کرتا ہے تو وہ مارا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، اس کی فیملی کو تنگ کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل میں پیش آیا، جہاں ایک 25 سالہ نوجوان صدام لاشاری قتل کردیا گیا۔
سوشل ایکٹیوسٹ صدام لاشاری قتل کیس سانحہ بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
27 مئی 2023 بروز جمعہ صدام لاشاری اپنے دوستوں کے ساتھ تنگوانی روڈ بلو سرکی کے ہوٹل پر صبح 9:30 بجے چائے پی رہا تھا کہ اچانک پولیس موبائل نمودار ہوئی، اور ایس ایچ او غلام نبی بجارانی اور اے ایس آئی عبدالمالک کوسو دو اہلکاروں کے ساتھ صدام لاشاری کو اٹھا کر موبائل میں لے گئے۔
واقعے کے بعد صدام لاشاری کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی، گرفتار نوجوان صدام لاشاری کے ساتھ بیٹھے دوستوں میں مشتاق کوسو اور عبدالوحید بروہی نے اہل خانہ کو اس واقع کے متعلق آگاہ کیا۔
صدام لاشاری کے بوڑھے والد مغل لاشاری ریٹائرڈ ملازم ہیں، ان کا اکلوتا بیٹا صدام لاشاری تھا جبکہ دو بیٹیاں ہیں۔
پولیس نے صدام کو رہا کرنے کے لیے دو روز میں دس لاکھ روپے طلب کرلیے ورنہ ’فل فرائی‘ کرنے کی دھمکیاں دیں۔
ایس ایچ او ٹھل ای سیکشن تھانہ غلام نبی بجارانی، اے ایس آئی عبدالمالک کوسو اور ایس ایچ او آباد تھانہ نبی بخش ڈاھانی نے پلاننگ کے تحت 29 مئی صبح 6 بجے کنڈو شاخ کے قریب مبینہ مقابلہ دکھا کر صدام لاشاری کو بے دردی سے قتل کردیا۔
پولیس کی کالی بھیڑیں سماجی برائیوں کا خاتمہ تو نہیں کرسکیں، لیکن سماجی برائیوں کی نشاندہی کرنے والے نوجوان، دیدہ دلیر، بے گناہ صدام لاشاری کو ملزم قرار دے کر قتل کردیا گیا۔
صدام لاشاری نے اس واقعہ سے کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر فحاشی کے اڈوں اور منشیات فروشوں سمیت سماجی برائیوں میں تھانیدار کے ملوث ہونے پر آئینہ دکھایا تو انہیں راستے سے ہٹانے کا پلان بنا کر قتل کردیا گیا، یہ فیس بک پوسٹس تاحال موجود ہیں۔
ایک بوڑھے باپ کا اکلوتا سہارا اور جوان بیوی، پانچ بچوں، دو بہنوں کا سہارا ان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا۔
واقعہ کے بعد ٹھل، جیکب آباد، کندھ کوٹ، سکھر، لاڑکانہ سمیت سندھ کے اکثر شہروں میں سوشل ایکٹیوسٹ، سماجی، سیاسی، مذہبی جماعتوں نے احتجاجی دھرنے دیے۔
واقعہ سوشل میڈیا پر زیر بحث آیا تو مجبوراً وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے نوٹس لے لیا۔
واقعے کے تیسرے روز جی آئی ٹی مقرر کی گئی اور ایس ایس پی شکارپور امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی لاڑکانہ عمران احمد پر مشتمل کمیٹی بنا کر انکوائری شروع کردی گئی۔
ظالم پولیس افسران کے تحفظ کے لیے بڑے ظالموں نے انٹری ماری تاکہ اپنے پیٹی بھائی کو اس معاملے سے دور کیا جاسکے۔
جے آئی ٹی نے ایس ایچ او ای سیکشن غلام نبی بجارانی، ایس ایچ او آباد تھانہ کے نبی بخش ڈاھانی کو معطل کیا، جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ کو متاثرہ اہل خانہ اور عوام کے نظروں سے اوجھل رکھا گیا، جے آئی ٹی کے متعلق معلومات طلب کی گئیں تو دونوں ایس ایس پیز نے مؤقف دینے سے صاف انکار کردیا۔
اس حوالے سے آج نیوز پشاور کی بیوروچیف سینئیر جرنلسٹ فرزانہ علی نے کہا، ’دیکھئے صدام لاشاری واقعے کا تو مجھے علم نہیں ہاں البتہ ایسے واقعات کا تواتر سے سندھ میں ہونا یقیناً قابل فکر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے کچھ یوٹیوبرز اور صحافیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات الارمنگ ہیں، جن کے تدارک کے لئے عملی اقدامات اٹھانے لازمی ہیں۔ طاقت کے استعمال کے زریعے زبان بندی ایک غلط عمل ہے، جس کی کسی بھی جہموریت میں اجازت نہیں دی جا سکتی، اس لئے اس طرح کے واقعات کے خلاف صحافتی یونیز اور پریس کلبز کی سطح پر آواز اٹھائی جاتی ہے، لیکن جہاں تک معاملہ یوٹیوبرز کا ہے تو وہ چونکہ صحافتی تنظیموں یا پریس کلب سے وابستہ نہیں ہوتے اس لئے ان کے خلاف ہونے والے واقعات کی تفتیش بھی متاثر ہوتی ہے، بہر حال ہم سب کو ایک موثر جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے چاہیے تبھی آزادی صحافت ممکن ہو سکے گی۔
فرزانہ علی نے مزید کہا کہ اگرچہ ہمارے جیسے معاشروں میں آزادی اظہار اور پریس میں مسائل اور مشکلات کی ایک تاریخ ہے، کئی ایسے واقعات ماضی میں بھی رونما ہوچکے ہیں، مگر اوور آل دیکھا جائے تو اظہار رائے اور اظہار آزادی صرف نام تک محدود ہے، اس لیے ایک متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی، جس کا فی الحال امکان نظر نہیں آتا۔ کیونکہ صحافتی سطح پر بھی تقسیم اتنی بڑھ گئی ہے جو اتحاد کو متاثر کر رہی ہے اور یہی چیز صحافیوں کی آواز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
سینئیر صحافی غلام یاسین لاشاری کا کہنا ہے کہ میڈیا سیفٹی کے حوالے سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پر سچ پوچھنے اور لکھنے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، صحافی ہو یا عام شہری ان کے لیے ایک زبردست قانون پاس کیا گیا ہے، ہر شہری اس قانون کے مطابق سرکاری اداروں سے معلومات فراہم کرنے کا حق حاصل ہے، اس قانون کے آرٹیکل 19 اے کا استعمال کرکے معلومات کی فراہمی حاصل کرسکتا ہے، مگر اس قانون پر عملدرآمد تب ہوگا جب ہم سمیت تمام سٹیزنز قانون کو استعمال کرنے کا طریقہ آزمائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بات درست ہے اگر کوئی صحافی قانونی شق رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 19 اے استعمال کرتا ہے تو حکومتی اور ریاستی ادارے ان کے دشمن بھی بن جاتے ہی ، پھر نت نئے طریقوں سے انہیں فیک نمبرز سے دھمکیاں دی جاتی ہیں یا پھر ان پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہونے سے صحافت خطرناک مراحل سے گزر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اظہار رائے اور آزاد صحافت پر سچ بولنے لکھنے والوں کو ہمیشہ مسائل کا سامنا ہوا ہے، حکومت وقت کو اگر جمہوریت کی بحالی چاہئے تو عام آدمی کی آواز کو دبانے سے گریز کریں تب جاکر جمہوریت کا حق ادا ہوسکتا ہے۔
حکمرانوں کو چاہئے کہ آزاد صحافت اور اظہار رائے پر لگائے جانے والے قدغن کو ختم کیا جائے اور صحافیوں کے تحفظات کو یقینی بنایا جائے۔