بدھ کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 سینیٹ میں پیش کیا گیا، لیکن ممبرانِ ایوان بالا کی جانب سے احتجاج پر چیئرمین سینیٹ نے یہ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیا گیا یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔
اس سے قبل پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے مذکورہ بل منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں بل پیش کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم ناگزیر ہے، یہ بل سرکاری دستاویزات کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے کے تناظر میں یہ اس عمل کو مزید مؤثر بناتا ہے۔
لیکن مجوزہ قانون کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ یہ 9 مئی کے تشدد کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے برپا ہو گئے تھے۔
تاہم عمومی خیال یہ ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اس کا استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس قانون کے عمل میں آنے کے بعد اس کا سابقہ دور پر اطلاق نہیں کیا جا سکے گا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ برطانوی راج کے دوران 1923 میں بنایا گیا تھا، جس کا مقصد فوج سے متعلق خفیہ معلومات افشاں کرنے پر کارروائی تھا اور اس بل میں اسی قانون میں ترامیم کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی“ کے مطابق بل میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
بل کے سیکشن 6 اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔
بل کے سیکشن 8 اے میں ”دشمن“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’کوئی بھی وہ شخص جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان اسٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہو، اس کے ساتھ کام کرتا ہو‘۔
سیکشن 9 کے مطابق جرم پر اُکسانے، سازش یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔
تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں ایک شق کو مبصرین نے زیادہ متنازع قرار دیا ہے۔
سرچ وارنٹ سے متعلق شق میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے کسی جرم یا جرم کے شبے میں ’ضرورت پڑنے پر بغیر وارنٹ طاقت کے زور پر کسی بھی وقت کسی شخص یا جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔‘
ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔
ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں، مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔
ترمیمی بل کے مطابق انٹیلی جنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔
بل کے مطابق ایسی الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انہیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
سیکشن 3 کا نام ”جاسوسی کی سزا“ سے بدل کر ”جرائم“ رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ”ان مینڈ وہیکل“ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔
اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔
اس ایکٹ میں ترمیم کے طور پر ان علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عارضی طور پر جنگی آزمائش، تربیت، ریسرچ، دستوں کی نقل و حرکت یا ان کیمرا اجلاس کے لیے مسلح افواج کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 فی الحال یہ جرم صرف جنگ کے دوران اس طرح کی نقل و حرکت تک محدود ہے، تاہم مجوزہ بل میں امن کے دنوں میں بھی یہ لاگو ہو سکے گا۔
بی بی سی کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلاء نے اس آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کی ہے اور اسے اسے ماورائے آئین قرار دیا ہے۔
ماضی میں پاکستانی فوج کی لیگل برانچ (جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ) سے منسلک رہے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس ترمیمی بل کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں واضح طور پر لکھا ہے اگر کسی کو گرفتار کرنا ہے، یا کسی گھر کی تلاشی لینی ہے، اس کے لیے سرچ وارنٹ ہونا ضروری ہے۔‘
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اُن اراکینِ پارلیمانٹ پر بھی تنقید کی جنہوں نے اس بل کو پڑھے بغیر منظور کیا۔
دوسری جانب سماجی کارکن ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کا مقصد انٹیلی جنس اداروں کو مزید اختیارات دینا ہے۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے تحت آئی ایس آئی اور آئی بی کو وسیع پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ ’کسی کو بھی شک کی بنیاد پر روک لیں، تلاشی لے لیں‘ جس کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خوفناک بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی انٹیلی جنس افسر کی شناخت ظاہر کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ آپ کا تعاقب کر رہے ہیں جیسے بلوچ طلباء کے کیس میں ہوتا ہے، تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔‘
ایمان مزاری کے مطابق یہ ترامیم محض سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خفیہ اداروں کی کارروائیوں بشمول جبری گمشدگیوں اور گھروں پر چھاپوں کو ”لیگل کوور“ دینے کے مترادف ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بی بی سے بات کرتے ہوئے ایک ہی روز میں سینیٹ سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری کا ارادہ پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی قرار دی اور کہا کہ یہ اسٹریٹیجک قانون ہے جس پر ’ہمہ پہلو طویل سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔‘
سینیٹر مشتاق نے کہا کہ اس بل کی موجودہ حالت میں منظوری سے ’پورا ملک ایک چھاؤنی اور ایک کھلا قید خانہ بن جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گرفتاریوں، تلاشیوں، ضبط کرنے کے غیر معمولی اختیارات مل جائیں گے۔ دستور کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے انسانی حقوق، انسانی آزادی اور میڈیا کی آزادی کے اوپر اثرات پڑ سکتے۔‘