پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشیدشاہ نے کہا ہے کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں زیرگردش تھی، وزیراعظم کے بیان سے لگتا ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوجائیں گے، نئی حلقہ بندوں سے انتخابات میں 8 سے 9 ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ عام انتخابات سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، ہم دودھ کے جلے ہوئے ہیں، 3 ماہ کے الیکشن 11 سال ملتوی ہوتے دیکھے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے تمام اختیارات لے لیے تھے، ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات ہوں، وزیراعظم نے وہ بات کی جو زیر گردش تھیں، شہباز شریف نے کہا الیکشن نئی مردم شماری پر ہوں گے، نئی مردم شماری میں دو ڈھائی ماہ لگ جائیں گے، 4 ماہ حلقہ بندیوں میں لگ جائیں گے پھر الیکش کمیشن کے پاس ڈیڑھ ماہ ہوگا۔
خورشید شاہ نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں سے انتخابات میں 8 سے 9 ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے، وزیراعظم کو بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے، وزیراعظم کی بات سے لگتا ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہوگی، آئین میں انتخابات کی تاخیر کا کوئی جواز نہیں، 5 سال میں مردم شماری اور حلقہ بندیاں ہوسکتی تھیں۔
مردی شماری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آخری وقت پر نئی مردم شماری کی بات سمجھ سے بالاتر ہے، نئی مردم شماری پر الیکشن نومبر تک بھی نہیں ہوسکتے، پہلے نگراں حکومتوں کے پاس اختیارات نہیں ہوتے تھے، اب نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پییلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ ہمارے ہاتھ میں کشکول ہے، 90 روز تک معاملات چلانے ہیں، ہمارے معاشی معاملات قرض پر چلتے ہیں، مزید قرض کی ضرورت پڑنے پر اختیارات میں اضافہ ضروری تھا، تمام کڑیاں ملانے سے لگتا ہے کہ نومبر میں الیکشن نہیں ہوں گے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی صاف اور شفاف انتخابات چاہتی ہے، ہر سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق ہے، پی ٹی آئی نے کوشش کی کہ آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہو، نگراں وزیراعظم کے لیے غیرسیاسی شخصیت اچھا انتخاب نہیں، پاکستان کا بیڑا غرق ٹیکنوکریٹس نے کیا ہے، آمریت کے ادوار میں کرپشن کو فروغ دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے ناموں پر مشاورت جاری ہے، نام فائنل ہونے پر لیڈر شپ کے سامنے رکھے جائیں گے، لیڈر شپ نے غیرسیاسی شخص کا نام دیا تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، غیرسیاسی شخصیات کا نام آیا توغور کریں گے، سیاستدان جمہوریت کے لیے کام کرتا ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ موجودہ قانون سازوں پر افسوس ہے، قانون سازی کے لیے ایوان میں بحث ہونی چاہیئے، 18ویں ترمیم لانے میں ہمیں 3 ماہ لگے تھے، قانون سازی کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، آنے والی حکومت آفیشل سیکریٹ ایکٹ ختم کردے گی۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کا کہنا ہے کہ 8 سے 9 اگست تک وزیراعظم سے نگراں وزیراعظم کے نام پربات چیت متوقع ہے، ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا، عام انتخابات سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار ہوتے دیکھ رہا ہوں
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے راجہ ریاض نے کہا کہ نئی مردم شماری پر حلقہ بندیاں ضروری ہیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ حلقہ بندیوں کے لیے 100 دن چاہئیں، حلقہ بندیوں پر انتخابات میں التوا واضح ہے، نئی حلقہ بندیوں پر مارچ تک انتخابات ہوسکتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے 3،3 نام دینے ہیں، اپوزیشن جماعتوں سے نام مانگے ہیں، وزیراعظم سے 8 سے 9 اگست تک ملاقات متوقع ہے، امید ہے کہ نگراں وزیراعظم کےتقرر کا معاملہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں طے ہوجائے گا، امید ہے نگراں وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن نہیں جائے گا۔
راجہ ریاض نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے چیئرمین نیب کے لیے میری تجویز کی حمایت کی تھی، وزیراعظم کے ساتھ اچھا تعلق ہے، امید ہے اتفاق رائے ہوجائے گا، ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اب تک اعلان نہیں کیا، آئندہ انتخابات سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 ارکان کا گروپ مل کر سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا، قومی اسمبلی 8 یا 9 اگست تک تحلیل ہوجائے گی، نگراں وزیراعظم کے لیے 3 دن میں مشاورت مکمل ہوجائے گی، ایک سوچ ہے کہ نگراں وزیراعظم ٹیکنوکریٹ کو لگایا جائے۔
راجہ ریاض نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ انتخابات مارچ تک ہوجائیں گے، سینیٹ الیکشن کے لیے لازمی ہے کہ الیکشن مارچ تک ہوجائیں، جسے معاشی معاملات پر عبور ہو اسے نگراں وزیراعظم ہونا چاہیئے، انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔
اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن سے پہلے جیل میں ہوں گے، نوازشریف نے وہ کام نہیں کیا جو عمران خان نے کیا، شہداء کے مجسمے توڑے اور عسکری تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔