اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے کم سن ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں مرکزی ملزم سومیہ عاصم کی 1 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض 7 اگست تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔
منگل کو رضوانہ تشدد کیس کی مرکزی ملزمہ نے ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد سے رجوع کیا۔ دوسری جانب لاہور کے جنرل اسپتال میں زیر علاج رضوانہ کی ادویات کی تبدیلی کا جائزہ لینے کیلئے میڈیکل بورڈ مشاورت کرے گا۔ رضوانہ کے حوالے سے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے وزیراعظم کو ٹیلی فون بھی کیا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ سومیہ نے کبھی رضوانہ کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا، عدالت ملزمہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار پڑھی لکھی ہیں اور سول جج کی اہلیہ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ رضوانہ اپنے والدین کی مرضی سے ان کے یہاں کام کرتی تھی لیکن اس کے علاوہ ایف آئی آر میں جو کچھ درج ہے وہ جھوٹ ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ رضوانہ کی عمر 17 برس ہے اور سومیہ نے ہمیشہ اس کے ساتھ نرمی سے کام لیا اور رضوانہ سے اسی طرح کا برتاؤ کیا جو وہ اپنے 7 سے 12 برس کے تین بچوں کے ساتھ کرتی تھیں۔
یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کی یکم اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔
دوسری طرف لاہور کے جنرل اسپتال میں تشدد کی شکار گھریلو ملازمہ کا علاج آٹھ روز سے جاری ہے۔
چودہ رکنی میڈیکل ٹیم نے رضوانہ کا معائنہ کرلیا ہے۔ برونکوسکوپی کے باوجود بچی کو سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رضوانہ کی گزشتہ رات نگراں وزیر صحت نے ادویات تبدیل کروائیں، بچی کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہیں۔
جنرل اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ ادویات کی تبدیلی کا جائزہ لینے کیلئے مشاورت کرے گا، جبکہ بچی کی فزیو تھراپی بھی جاری ہے۔
رضوانہ پر مبینہ تشدد کے حوالے سے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے وزیراعظم شہبازشریف کو ٹیلی فون کیا۔
وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کیس کے حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف سے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ بچی کے والدین نے ملاقات میں انصاف اور مدد کی اپیل کی ہے۔
وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے بچی کے والدین کی استدعا، وزیراعظم تک پہنچائی۔
محسن نقوی نے بچی کی صحت اورعلاج معالجے کے بارے میں بھی شہبازشریف کو آگاہ کیا۔
اس موقع پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے مظلوم خاندان کی ہر ممکن مدد اور فوری انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔
گھریلو ملازمہ رضوانہ پر مبینہ تشدد کرنے والی خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ نے گزشتہ روز معاملے کی وضاحت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بچی گھر گئی تو بالکل ٹھیک تھی، میری اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن اس نے مارپیٹ نہیں کی، بچی کے والدین پیسوں کی لالچ یا کسی کی ہدایت پر الزامات لگار ہے ہیں۔
گھریلو ملازمہ 14 سالہ رضوانہ پر مبینہ بہیمانہ تشدد کرنے والی خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ نے نجی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میری اہلیہ نے گھر کے کاموں کے لئے اپنی دوست کو ملازمہ کا کہا تھا، جس پر رضوانہ کو ہمارے گھر لایا گیا۔
عاصم حفیظ نے بتایا کہ بچی کے والدین اس کی عمر 14 سال بتارہے ہیں، لیکن جب وہ ہمارے گھر آئے تو بتایا تھا کہ رضوانہ کی عمر 16 سے 17 سال ہے، اور ضلعی قوانین کے تحت یہ عمر ملازمت کے قابل تھی، جس پر بچی کو گھر میں ملازمت پر رکھا، اور اس کے گھر والوں کو 10 ہزار یا اس سے زیادہ رقم بھجواتے تھے۔