امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے دو سال بعد پہلی بار دونوں فریق ایک میز پر بیٹھے ہیں۔
قطر میں طالبان نے دو سال بعد امریکی حکام سے ملاقات کی ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے پیر کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے دو روزہ بات چیت کے دوران اعتماد سازی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا، جن میں پابندیوں اور سفری پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک رکھے گئے افغان مرکزی بینک کے اثاثوں کی واپسی بھی شامل ہے۔
عبدالقہار بلخی نے کہا کہ وفود نے منشیات کی روک تھام اور انسانی حقوق کے مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے سوائے چند ایک کے کسی بھی ملک نے انہیں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اگست 2021 میں جب افغانستان کی مغربی حمایت یافتہ حکومت 20 سالہ تنازعے کے بعد ملک سے امریکی انخلاء کے نتیجے میں گری تو اس گروپ نے فوراً اقتدار سنبھال کیا تھا۔
اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان کو خواتین کی تعلیم پر عائد پابندیوں پر بین الاقوامی مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔
افغانستان بھی انسانی بحران سے دوچار ہے، جہاں اس کی تقریباً نصف آبادی (23 ملین افراد) کو گزشتہ سال ورلڈ فوڈ پروگرام سے امداد مل رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کے عہدیداروں نے طالبان کو بتایا کہ واشنگٹن معاشی استحکام اور ملک میں انسانی حقوق کی ”خرابی“ کے بار بار خدشات پر تکنیکی بات چیت کے لیے تیار ہے۔بیان کے مطابق، شرکاء بشمول امریکا کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے خصوصی ایلچی رینا امیری نے نظربندیوں، میڈیا کے کریک ڈاؤن اور مذہبی عمل پر پابندیوں کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا۔
حکام نے طالبان سے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر عائد پابندیوں کو واپس لینے کے ساتھ ساتھ حراست میں لیے گئے امریکیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے اس بڑھتے ہوئے موسم میں پوست کی کاشت میں نمایاں کمی کو تسلیم کرتے ہوئے انسداد منشیات پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے کھلے پن کا اظہار کیا۔
طالبان جنگجو پوست سے افیون نکالتے تھے اور برسوں تک اپنی مسلح جدوجہد کو اس سے فنڈر فراہم کرتے رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2020 تک دنیا کی 85 فیصد افیون افغانستان سے نکل رہی تھی۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حکام نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔
امریکی وفد نے افغان مرکزی بینک اور وزارت خزانہ کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی، محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس نے گرتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ 2023 میں بڑھتی ہوئی برآمدات اور درآمدات کا بھی نوٹس لیا۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا نے نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں رکھے گئے افغان مرکزی بینک کے تقریباً 7 بلین ڈالر کے فنڈز منجمد کر دیے تھے۔ اب نصف فنڈز سوئس میں قائم افغان فنڈ میں ہیں۔