Aaj Logo

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2023 03:55pm

سپریم کورٹ: توشہ خانہ کیس کا فیصلہ چیلنج ہوتے ہی درخواست کو نمبر لگ گیا

ایک طرف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہو رہی ہے تو دوسری جانب عمران خان کی قانونی ٹیم نے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

ابھی عمران خان دیگر عدالتوں میں حاضری لگوا رہے تھے کہ ان کی قانونی ٹیم نے توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

فیصلے کیخلاف دائر اپیل میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے نہیں روکا، حکم امتناع نہ دینے سے ٹرائل کورٹ میں سماعت مکمل ہوجائے گی، ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ہائیکورٹ میں اپیلیں غیر مؤثر ہوجائیں گی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کو حکم امتناع پر منظور یا مسترد کا آرڈر کرنا چاہیے تھا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف اپیل سماعت کیلئے منظور کی جائے، ٹرائل کورٹ کو کارروائی آگے بڑھانے سے روکا جائے۔

عمران خان نے اپیل پر فوری سماعت کی درخواست بھی دائر کردی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم درخواست لے کر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے پیش ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اپیل دائر تو کریں پھر دیکھ لیں گے، آپ ماشاءاللہ سمجھدار وکلا ہیں ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔

کچھ دیر بعد رجسٹرار سپریم کورٹ نے عمران خان کی درخواست کو نمبر لگا دیا، رجسٹرار کی جانب سے درخواست پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا۔

رجسٹرار نے عمران خان کی درخواست کو کریمنل پٹیشن 877/2023 نمبر لگایا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے کل یکم اگست کو کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی ہے۔

سیشن کورٹس اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت

دوسری جانب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کیلئے الیکشن کمیشن کے وکلاء سعد حسن اور امجد پرویز عدالت پہنچے، جبکہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت سے قبل جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں سیکیورٹی چیک کیا گیا اور پولیس کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر تعینات ہے۔

دورانِ سماعت غیر متعلقہ افراد کے کمرہ عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

سماعت کے آغاز میں وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان سپریم کورٹ مصروف ہیں کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔

جس پر جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کس ٹائم تک پہنچیں گے؟

معاون وکیل نے جواباً کہا کہ ٹائم کنفرم نہیں لیکن فری ہوتے ہی پیش ہو جائیں گے۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت میں 12 بجے تک وقفہ کردیا۔

بارہ بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ حارث کے معاون وکیل عدالت میں پیش ہوئے، جنہوں نے بتایا کہ ملزم انسداد دہشتگردی اور احتساب عدالت میں پیش ہو گئے ہیں، تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے، خواجہ حارث سپریم کورٹ میں ہیں وہ بھی تھوڑی دیر تک پہنچ رہے ہیں۔

معاون وکیل نے استدعا کی کہ سماعت میں تھوڑی دیر کا وقفہ کیا جائے۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت میں دوبارہ ساڑھے بارہ بجے تک وقفہ کردیا۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکلاء نے 342 بیان کی کارروائی ملتوی کرنے کے لیے درخواست دائر کردی۔

دوران سماعت جج ہمایوں دلاور نے غیرمتعلقہ پی ٹی آئی وکلاء کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی بار بھی کہا تھا غیر متعلقہ وکلاء نہ عدالت آئیں۔

پی ٹی آءی کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان عدالت میں موجود ہیں، ان کا آج بیان ریکارڈ ہونا ہے، لیکن خواجہ حارث سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے 35 سوالات پوچھے ہیں، تحریری جواب بھی دینا چاہتے ہیں۔

شیر افضل نے بتایا کہ عاشورہ میں وکلاء کام نہیں کرتے، توشہ خانہ کیس کے بیان ریکارڈ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بیان ریکارڈ کرنے کا مناسب وقت دے دیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سوالنامہ مہیا کرنا ملزم کے لیے ایک طرح کا ریلیف ہے، اگر ملزم غلط جواب بھی دے دے تو سزا نہیں ہوسکتی، جمعرات کو عمران خان کو بیان ریکارڈ کروانا تھا، آج پیر کا دن آگیا بیان ریکارڈ ابھی تک نہیں ہوا۔

ونہں نے کہا کہ ٹرائل میں سوالات جاری کرنے کی کوئی ریلیف نہیں ہوتی لیکن عدالت نے دی، اگر چیرمین پی ٹی آئی تحریری بیان دینا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے، زیادہ سے زیادہ ریلیف عدالت نے پہلے ہی چیرمین پی ٹی آئی کو دے دی ہے،عمران خان کو سوالنامہ دینے کے بعد حیرت میں نہیں آنا چاہیے، سوالنامے میں اثاثہ جات کے حوالے سے چیرمین پی ٹی آئی سے پوچھا گیا ہے، ان سے وہی پوچھا گیا جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروایا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن میں جواب اسپیکر کے ریفرنس بھیجنے پر دائر کیا گیا، سماعت ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، وکیل الیکشن کمیشن نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا پر اعتراض اٹھا دیا۔

وکیل شیر افضل مروتنے کہا کہ مجھے ریلیف کے لفظ پر اعتراض ہے، چیرمین پی ٹی آئی نے عدالت سے کوئی ریلیف نہیں لیا، عمران خان کو کوئی ایسا ریلیف چاہیے بھی نہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیا گوہر علی خان نے سوالنامہ وصول نہیں کیا؟ وکیل گوہرعلی خان نے کیوں سوالنامہ وصول کرتے وقت اعتراض نہیں کیا؟

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ وکیل گوہرعلی خان نے خواجہ حارث سے پوچھ کر سوالنامہ وصول کیا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ کیا چیرمین پی ٹی آئی نے بیان ریکارڈ کروانے کے حوالے سے کوئی ریلیف مانگا؟

جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ برائے مہربانی ریلیف کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ پورے ملک کی نظریں توشہ خانہ ٹرائل پر ہیں، موکل کو کیا اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل حق دیا جاتا ہے، سب دیکھا جائےگا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام درخواستیں زیر سماعت ہیں، گواہان کو الیکشن کمیشن کا ریکارڈ بھی مکمل طور پر مہیا نہیں کیا گیا، آج سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتاہوں، آئندہ سماعت پر چیرمین پی ٹی آئی اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے گارنٹی دیتا ہوں۔

خواجہ حارث کے عدالت میں آںے پر جج ہمایوں دلاور نے انہیں خوش آمدید کہا۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے امجد پرویز کی نظر لگ گئی، صبح دیر سے اٹھا ہوں، صبح اسپتال گیاتھا، رات کو دیر سے سویا تھا، ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں التوا ہیں، دائرہ اختیار والی درخواست بھی اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قانون کے مطابق توشہ خانہ ٹرائل کو دیکھنا چاہیے، چیرمین پی ٹی آئی کے بیان کا معاملہ آئندہ ہفتے کرلیا جائے، تب تک ہائیکورٹ بھی فیصلہ کرلے گا، سارا دن درخواستیں ہی تیار کرتے رہتے ہیں، چیرمین پی ٹی آئی بیان کے حوالے سےوقت مانگ رہےہیں، رواں ہفتے میں ہی اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہو جائیں گی،اس کے بعد بیان ریکارڈ کروانے کے حوالے سے کوئی جواز نہیں رہے گا۔

اس کے بعد عمران خان روسٹرم پر آگئے۔

جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ گوہر علی خان نے گزشتہ سماعت پر بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بھی وقت مانگا تھا، گوہرعلی خان نے 26 جولائی کو پہلی بیان ریکارڈ کروانے کی درخواست دائر کی، آپ کی جانب سے بیان ریکارڈ کروانے سے متعلق تیسری درخواست آگئی ہے، آپ کو سوالنامہ 26 جولائی کو دیا گیا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ بیان ریکارڈ کروانے کے معاملے پر چھوٹی چھوٹی باتیں آجاتی ہیں، کچھ مس نہ ہوجائے، پی ٹی آئی کی تسلی نہ ہو۔

جج ہمایوں دلاور نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ میں کہا کہ جرح بھی آپ نے کی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آج بیان ریکارڈ ہو بھی جاتا ہے تو کیا فیصلہ آج ہوجائے گا؟

جس پر جج نے استفسار کیا کہ آپ کو توشہ خانہ کے فیصلے سے کیوں ڈر لگ رہا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ میں بھاگوں یا ٹرائل کورٹ میں ؟ کہیں تو مکمل توجہ دیں، تینوں عدالتوں میں بھاگ رہے ہیں، سانس لینے کا موقع نہیں مل رہا۔

جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا یہ عمرکا تقاضا تو نہیں؟ جج ہمایوں دلاورکے جملے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں ختم ہوتی ہیں تو ہم ٹرائل کورٹ آجائیں گے، میں انڈرٹیکنگ دینے کو تیار ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث کو کہا کہ آج آپ کچھ کر گزرے تو ذہن میں رہےگا کہ وقت نہیں دیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ سے فیصلہ ہوگیا، میں اور چیرمین پی ٹی آئی اگلے دن آپ کے پاس ہوں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر ہیں لیکن اب تک فیصلہ کوئی بھی نہیں ہوا، 342 کا بیان ریکارڈ ان کے اپنے دستاویزات پر ہونا ہے،جو بیان الیکشن کمیشن کے سامنے دیا اس ہی پر 342 کا بیان ریکارڈ کروانا ہے، 342 کے بیان ریکارڈ کروانے سے کوئی تعصب نہیں دکھایا جائے گا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے چیرمین پی ٹی آئی کا آج 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کی استدعا کردی۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث آپ کو وقت دیا گیا، آپ نے بیان ریکارڈ نہیں کروایا، 3 بجے تک آپ کے پاس بیان ریکارڈ کروانے کا وقت ہے، آج تیسرا دن ہے، آج چیرمین پی ٹی آئی اپنا ریکارڈ بیان کروا دیں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی کہہ رہے میں نے دستاویزات کو ابھی مکمل نہیں پڑھا، چیرمین پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں کہ مجھے وقت چاہیے۔

عمران خان نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمے میں کہا کہ مجھے تو کل بیانات دیے گئے ہیں۔

جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کی لیگل ٹیم آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ 35 سوالات دیے، میں کوئی وکیل تو نہیں ہوں، مجھے تو بیانات کو خود پڑھنا ہے ابھی۔

جس پر جج ہمایوں د؛اور نے کہا کہ اگر خواجہ حارث چاہیں تو ایک ایک سوال آپ کو بتایا اورسمجھایا جا سکتا ہے، خواجہ حارث، انتظار پنجوتھا اور شیرافضل کے ہوتے کیا فکر ہے؟

عمران خنا نے کہا کہ مجھے کوئی ڈر نہیں، میں سب پڑھ کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتا ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سب وکلاء کو کمرہ عدالت سے رخصت کردیں، چیرمین پی ٹی آئی کو سمجھائیں اور بیان ریکارڈ کروائیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گن پوائنٹ پر کیسز نہیں سنے جاتے۔

عمران خان نے کہا کہ ڈیڑھ سو سے زائد کیسز ہیں، شاملِ تفتیش بھی ہونا، معمول کے مطابق حالات نہیں، میں مطمئن ہوں گا تو بیان ریکارڈ کرواؤں گا نا۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ عدالت نے کافی وقت دیا آپ کو، آج عدالت آپ کو مزید وقت نہیں دےگی، 3 بجے تک کا وقت ہے۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 3 بجے تک یا بیان ریکارڈ کروائیں گے یا نہیں کروائیں گے۔

عدالت نے 3 بجے تک چیرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کروانے کی مہلت دے دی۔

وقفے کے بعد توشہ خانہ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہائیکورٹ میں معاملہ پنڈنگ تھا اور یہاں کارروائی چلائی جاتی رہی، چیرمین پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ کی ڈائیری برانچ سے نیب نے اٹھایا، اگلے دن پولیس لائین میں عدالت لگا کر پیش کر دیا گیا، مجھے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور اس عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس لائن پیشی پر فرد جرم عائد کی گئی، فرد جرم کی کارروائی پر ہمارے تین اعتراضات ہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ یہ اسی دن کا واقع ہے جب فرد جرم عائد ہوا اور آپ کی جانب سے کہا گیا کہ اٹھیں اٹھیں۔

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جی اسی دن کا واقعہ ہے جب فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سیشن عدالت نے چیرمین پی ٹی آئی کے سامنے فرد جرم بھی نہیں پڑھا۔

جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ یہ وہی دن ہے جب فرد جرم پڑھایا گیا اور آپ نے کہا اٹھیں اور چلیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فردجرم عائد کرتے وقت جرم چیرمین پی ٹی آئی کو پڑھایاگیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کبھی سماعت بائیکاٹ نہیں کی، ایسا کہہ بھی کیسے سکتےہیں، چیرمین پی ٹی آئی پر کوئی فردجرم عائد نہیں ہوا، میں بار بار کہتا ہوں۔

جج نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا آپ اپنا افیڈیوٹ جمع کروائیں گے کہ فردجرم عائد نہیں ہوا؟ کیا افیڈیوٹ جمع کروا سکتے ہیں کہ فردجرم آپ کے سامنے نہیں پڑھا گیا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ تین اپیل کی درخواستیں اعلیٰ عدلیہ میں زیرالتوا ہیں، فرد جرم کبھی چیرمین پی ٹی آئی کو پڑھ کر ہی نہیں سنایا گیا، نہ فردجرم پڑھا، نہ سیشن عدالت نے چیرمین پی ٹی آئی کا جواب لیا گیا تھا، جب ہم عدالت سے باہر چلے گئے تو فرد جرم اسکے بعد پڑھا گیا، 7 دن دیے گئے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے، درخواست دی کہ سماعت پیرتک ملتوی کی جائے لیکن وہ ہماری استدعا مسترد کی گئی، ہائیکورٹ نے سات دن دیے اوراس عدالت نے تیسرے دن فیصلہ کردیا، اس عدالت نے 15 منٹ میں فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے آرڈر جاری کرنا ہے تو پہلے لکھنا ہوتا ہے،عدالت نے زبانی فیصلہ پہلے سنایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بھی تیسرے روز سیشن عدالت نے فیصلہ سنادیا، 4 گھنٹوں پر محیط سماعت کا فیصلہ عدالت نے 15 منٹ میں سنا دیا، کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا سیشن عدالت نے آپ کو زبردستی کہا تھا کہ قابل سماعت ہونے کے معاملے پر دلائل دیں؟ آپ دلائل بھی دیتے رہے، چائے بھی پیتے رہے، یہاں جونیئر وکیل بھی موجود ہیں، ایمانداری دکھائیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایمانداری دکھا رہاہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ ایمانداری نہیں دکھا رہے، کچھ اور دکھا رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ جاری کرنا ہوتا تو پہلے لکھا جاتاہے، آپ نے زبانی فیصلہ سنا دیا، کیا عدالت نے پہلے سے مائنڈ بنایاہوا کہ دلائل سنائیں تاکہ جلد فیصلہ سنایاجائے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کی عدالت نے کیس قابلِ سماعت ہونے کے معاملے پر 3 روزمیں فیصلہ سنا دیا، میں نے کہا پانچ روز میں فیصلہ سنا دیں، ہماری آپ نے نہیں سنی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس قابلِ سماعت ہونے پر 7 روز کا وقت تعین کیا، آپ تین دن میں فیصلہ سنا رہے، آپ ہمیشہ تاریخیں گنتے ہیں، چھٹیوں کو کون گنتا ہے، عید اور عاشورہ کی چھٹیوں میں کیسے وکلاء سے کام کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ کیا توشہ خانہ کیس میں جانبداری نظر نہیں آرہی؟ چیرمین پی ٹی آئی کے دماغ میں عدالت کی جانب سے ایسا تاثر بنا دیاگیاہے، چیرمین پی ٹی آئی کا عدالتی حق متاثر کیا جارہا ہے۔

عمران خان کے خلاف آج 12 کیسز کی سماعت

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے ویڈیو بیان میں کہا کہ ویسے تو اسلام آباد میں چھٹی ہے، لیکن چئیرمن تحریک انصاف کے لیے عدالتوں میں چھٹی نہیں ہے، چئیرمن پی ٹی آئی کے ہمراہ اسلام آباد جا رہے ہیں۔

نعیم پنجوتھہ نے بتایا کہ آج عمران خان کے 12 کیسز اور 2 کیسز بشریٰ بی بی کے ہیں، پولیس نے ٹائم دیا تو 6 کیسز میں پولیس کے پاس تفتیش جوائن کرنی ہے، چئیرمن تحریک انصاف آج 3 کیسز میں اے ٹی سی میں پیش ہوں گے، 7 کیسز ڈسٹرکٹ کورٹ اور 2 نیب کورٹ کیسز میں پیش ہوں گے۔

عمران خان کی ضمانت میں توسیع

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نو مئی کے حوالے سے 6 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت میں پندرہ اگست تک توسیع کردی۔

دوران سماعت جج طاہرعباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ یہ عام نوعیت کا کیس نہیں، پہلے پولیس بلاتی تھی ملزم نہیں جاتے تھے، اب ملزم کہہ رہے ہیں ہم شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں اور پولیس شامل تفتیش نہیں کررہی۔

اس سے قبل عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے شامل تفتیش ہونے کی پوری کوشش کی لیکن شامل تفتیش نہیں کیا گیا ، 10 محرم کو بھی شامل تفتیش ہونے کا لکھا لیکن پولیس سے کوئی جواب نہیں ملا ،ہماری بس ہوگئی ہے ہم بھی انسان ہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ملزم ثبوت دے کہ انہوں نے شامل تفتیش ہونے کی کوشش کی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 26 جولائی کو شامل تفتیش ہونے کا آرڈر دیا آپ عاشورہ والے دن درخواست دے رہے ہیں یہ عام نوعیت کا کیس نہیں۔

Read Comments