Aaj Logo

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2023 03:18pm

باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرز کنونشن میں دھماکا، جاں بحق افراد کی تعداد 54 ہوگئی

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی شوکت عباس کا کہنا ہے کہ باجوڑ خودکش دھماکہ میں شہید افراد کی تعداد افراد 54 ہوگئی ہے، جبکہ 83 زخمی ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ جلسہ دو بجے شروع ہوا اور چار بج کر 10 منٹ پر دھماکہ ہوا، موقع سے بال بیرنگ وغیرہ ملے ہیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ دھماکہ خود کش تھا، حملہ آور گروپ کی شناخت بھی ہوئی ہے۔

شوکت عباس کے مطابق دھماکہ میں کوئی خاص ٹارگٹ تھا، ابتدائی انکوائری میں ملزمان تک تقریبا پہنچ چکے ہیں، جائے وقوعہ سے بہت سارے شواہد ملے ہیں، فرانزک رپورٹس آمد کا انتظار ہے۔

باجوڑ کے صدر مقام خار میں خود کش دھماکا ہوا، جس میں جے یو آئی خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکٹری مولانا حميد الله سمیت 46 افراد جاں بحق اور 200 کے قریب افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ صوبے کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، اور پاک فوج کا ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر فیصل نےتصدیق کی ہے کہ دھماکے کے مزید تین زخمی دم توڑ گئے ہیں جس کے بعد شہدا کی تعداد 46 ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ دھماکے میں 90 سے زائد زخمی مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں، 36 میتیں شناخت کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئی ہیں، جبکہ 8 لاشں ناقابل شناخت ہونے کے باعث اسپتال میں شناخت کے لئے موجود ہیں۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ مقامی افراد لاپتا پیاروں کی تلاش میں اسپتالوں میں معلومات حاصل کررہے ہیں۔

مقدمہ درج، 3 گرفتار

باجوڑ دھماکے کی ایف آئی آر نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کرلی گئی ہے، مقدمے میں انسداد دہشتگردی سمیت مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مقدمہ میں 7 اے ٹی اے، 302،324،427 سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایس ایچ او تھانہ خار کی مدعیت میں سی ٹی ڈی مالاکنڈ ریجن میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق جے یو آئی کنونشن میں 300 سے زائد افراد موجود تھے، پروگرام جاری تھا کہ 4 بج کر 10 منٹ پر خودکش دھماکہ ہوا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ زخمیوں اور شہدا کو ریسکیو کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) باجوڑ نذیر خان کا کہنا ہے کہ تین مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، واقعہ کی تفتیش جاری ہے، ابتدائی تفتیش کے مطابق دھماکہ خودکش لگتا ہے۔

ڈی پی او باجوڑ نے بتایا کہ شہید ہونے والے کئی افراد کی نماز جنازہ آبائی علاقوں میں ادا کردی گئی ہے۔

کور کمانڈر اور آئی جی ایف سی کی عیادت

کور کمانڈر پشاور سردار حسن اظہر حیات اور آئی جی ایف سی باجوڑ پہنچے جہاں انہوں نے دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی۔

کور کمانڈر اور آئی جی ایف سی نے دھماکے کی جائے وقوعہ کا دورہ کیا جہاں انہیں کل ہونے والے دھماکے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

کور کمانڈر کا کہنا تھا کہ غم کے اس گھڑی میں ہم افواج پاکستان باجوڑ کے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

جبکہ آئی جی ایف سی نے کہا کہ دہشتگردی ایک ناسور ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔

قبل ازیں صوبائی وزیر اطلاعات فیروز جمال نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ اس حملے میں اب تک 44 افراد شہید اور 200 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔

دھماکا باجوڑ کے صدر مقام خار کے علاقے شنڈئے موڑ میں ہوا جہاں جے یو آئی کا ورکرز کنونشن جاری تھا اور بڑی تعداد میں کارکن جمع تھے۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس، ریسکیو اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں، اور لاشوں اور زخمیوں کو خار اسپتال منتقل کیا۔

دھماکے میں 12 کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا

دھماکے سے متعلق بم ڈسپوزل یونٹ کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہے، اور بی ڈی یو حکام نے تصدیق کی ہے کہ تحقیقات کے مطابق دھماکا خودکش تھا، اور دھماکے میں 12 کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا، جب کہ اس میں بال بئیرنگ کا بھی استعمال کیا گیا تھا، جائے وقوعہ سے بال بیرنگ بھی برآمد ہوئے ہیں۔

دھماکے کی ویڈیو بھی سامنے آگئی ہے۔

ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پنڈال میں لوگ جمع ہیں اور پیچھے کی جانب موجود افراد کھڑے ہوکر خطاب سن رہے ہیں، ورکرز کنونشن میں نوعمر لڑکے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، اس دوران سامنے کی جانب ایک زوردار دھماکا ہوتا ہے اور شعلہ بلند ہوتا ہے۔

ویڈیو پنڈال کے پچھلے حصے میں موجود کسی شخص نے بنائی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکے کے بعد افراتفری پھیل گئی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکا اسٹیج کے قریب لوگوں کے درمیان ہوا، اور اس وقت جے یو آئی خار کے سربراہ مولانا ضیا اللہ جان تقریر کر رہے تھے۔

انتظامیہ نے خار اور دیگر شہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور بھی بھیجا رہا ہے۔ جانی نقصان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دھماکا خود کش تھا، آئی جی کے پی کی تصدیق

آئی جی خیبرپختوانخوا اختر حیات خان نے ”آج نیوز“ کو تصدیق کی ہے کہ خار میں جے یو آئی ورکرز کنونشن میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا۔

آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی اختر حیات کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد خودکش بمبار کے اعضا مل گئے ہیں، جب کہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔

پاک فوج کا ریسکیو آپریشن شروع

باجوڑ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج کی جانب سے 4 ہیلی کاپٹر خار پہنچ گئے اور زخمیوں کی خار اسپتال سے پشاور منتقلی شروع کردی گئی، سی ایم ایچ اور ایل آر ایچ پشاور میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے زخمیوں کو خون کے عطیات دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

میڈیکل آفیسر ڈی ایچ کیو باجوڑ ڈاکٹر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ پینسٹھ زخمیوں کا ڈی ایچ کیو میں علاج جاری ہے، تیس کو تیمرگرہ اور بیس کو پشاور منتقل کردیا گیا ہے.

پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹر میں 10 شدید زخمی افراد کو پشاور منتقل کر دیا گیا ہے، جب کہ باجوڑ اسکاوٹس اسپتال میں داخل 12 شدید زخمیوں کو پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹر میں پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔

آئی جی ایف سی میجر جنرل نور ولی بھی جائے وقوعہ پر موجود ہیں، اور سیکیورٹی فورسز اور دیگر اداروں کا ریسکیو آپریشن جاری ہے، علاقہ کو گھیرے میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

جے یو آئی خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان بھی دھماکے میں جاں بحق

ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن جے یو آئی فاٹا خالد جان داوڑ کے مطابق دھماکے میں جے یو آئی خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان بھی شہید ہوگئے ہیں۔ جب کہ تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکرٹری مولانا حميد الله بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اسٹیج کے قریب ہوا اور اس وقت مولانا ضیاء اللہ جان کی تقریر جاری تھی۔ مولانا ضیاء اللہ جان پر اس سے قبل بھی حملہ ہوچکا تھا، وہ کالعدم داعش کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے جے یو آئی کے 22 لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جن میں مولانا ضیا اللہ بھی شامل تھے۔

دھماکے میں تخت بھاٸی کا رہاٸشی نوجوان سید شہزاد شاہ بھی جاں بحق ہوا جو جے یو آٸی کا سرگرم کارکن تھا۔ شہزاد جلسے میں شرکت کیلٸے باجوڑ گیا، تاہم دھماکے میں جان کی بازی ہار گیا۔

زخمیوں کو کون کون سے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، اور ریسکیو کے مطابق اب تک 65 زخمی افراد کو خار اسپتال منتقل کیا جا چکا ہے، جب کہ مزید زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور منتقل کرنا شروع کر دیا گیا ہے اور صوبے کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

میڈیکل آفیسر ڈی ایچ کیو باجوڑ کی 40 افراد کی موت کی تصدیق

گزشتہ روز دھماکے کے بعد میڈیکل آفیسر ڈی ایچ کیو باجوڑ ڈاکٹر لیاقت علی نے تصدیق کی تھی کہ باجوڑ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔

ڈاکٹرلیاقت علی نے بتایا کہ دھماکے میں 115 زخمی مختلف اسپتالوں میں ہیں، جن میں سے 65 زخمی ڈی ایچ کیو خار میں زیر علاج ہیں، اور 30 سے زائد زخمیوں کو تیمرگرہ منتقل کیا گیا، جب کہ 20 سے زائد تشویشناک زخمیوں کو پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔

جاں بحق ہونے والوں میں 6 نعشوں کی شناخت تحال نہ ہوسکی

ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال عاصم علی کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی میں خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔ زخمیوں کے لئے الگ وارڈ ڈاکٹرز نرسز اور پیرامیڈیکس کی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ تمام ضروری ادویات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آئی سی یو کی ٹیم کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

اسپتال ترجمان کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 6 نعشوں کی شناخت تاحال نہ ہوسکی، ایل آر ایچ اسپتال میں خون بھی وافر مقدار میں موجود ہے اور زخمیوں کا علاج جاری ہے۔

وزیراعظم کی باجوڑ میں دھماکے کی شدید مذمت

وزیراعظم شہبازشریف نے باجوڑ دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر شدید مذمت اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعیت علماءِ اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، مجھ سمیت پوری قوم واقعہ میں شہید ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی جماعتوں پر حملے سے واضح ہے کہ دشمن پاکستان میں جمہوری نظام کے خلاف ہے، جس کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی، اور ذمہ داران کی نشاندہی کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی، پاکستانی قوم، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہمارے محافظ دشمن کے ایسے بزدلانہ ہتھکنڈوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

شہبازشریف کا مزید کہنا تھا کہ میں نے مولانا فضل الرحمان سے ٹیلی فون پر گفتگو میں نہ صرف ان سے تعزیت کی بلکہ واقعے کی تفصیلات بھی پوچھیں، اور وزیرِاعلی، چیف سیکٹری اور آئی جی سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی اور واقعے پر رپورٹ کے ساتھ ساتھ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات اور ہیلی کاپٹر سے اسپتال پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا وزیراعظم اوروزیراعلی کے پی سے انکوائری کا مطالبہ

سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے باجوڑ حملے پر شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم اوروزیراعلی کے پی سے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ حکومتیں زخمیوں کوبہترین علاج فراہم کرے۔

مولانا فضل الرحمان نے کارکنان کو پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے زخمیوں کی صحت یابی اور شہداء کے بلند درجات کی دعا کی ہے۔

سابق صدرآصف زرداری، بلاول بھٹو کی باجوڑ دھماکے کی مذمت

سابق صدر آصف علی زرداری نے جے یو آئی کے کارکنان کی شہادت پر مولانا فضل الرحمان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد سب کے دشمن ہیں۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے بھی شہداء کے خاندانوں اور جے یو آئی سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے سر پرستوں کو قانون کی گرفت میں لائے، دہشتگردی کے منصوبہ سازوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

افغان طالبان کی دھماکے کی شدید مذمت

دھماکے کے حوالے سے افغان طالبان نے بیان جاری کیا ہے کہ کہ امارات اسلامیہ دھماکے مذمت کرتی ہے، اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اپنی گہری تعزیت اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

افغان طالبان نے شہداء کو جنت الفردوس اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے جرائم کسی طور بھی جائز نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی باجوڑ دھماکے کی شدید مذمت

وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے باجوڑ دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اورافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارےحوصلے پست نہیں کرسکتے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، لیکن ہم مٹھی بھر دہشتگرد عناصر کو جلد ختم کر کے دم لیں گے، مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

سیاسی اجتماع کو ٹارگٹ کرکے قتل و غارت بدترین درندگی ہے

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے پروگرام میں دھماکا انتہائی قابل مذمت ہے، جس میں 5 افراد کی شہادت اور 30 زخمیوں کی اطلاعات ہیں، متاثرہ خاندانوں اور پارٹی لیڈرشپ سے تعزیت کرتا ہوں۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ دہشتگردی اور سیاسی اجتماع کو ٹارگٹ کرکے قتل و غارت بدترین درندگی ہے، وفاقی، صوبائی حکومتیں، فورسز اور انٹیلیجنس ادارے، سول ایڈمنسٹریشن عوام کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

ان مزید کہنا تھا کہ دہشتگردی کی طاقتور انداز سے واپسی سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت کی سیکورٹی پلان پالیسی ناکام ہوچکی ہے، قبائلی اضلاع، خیبرپختونخوا دہشتگردی کی آگ میں جل رہے ہیں، اور پارلیمنٹ اشرافیہ کی خدمت میں لگی ہے، خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی پر پارلیمنٹ کا مشترکہ ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے۔

Read Comments