محققین نے خبردار کیا ہے کہ گلیشیئرز، برفانی چوٹیوں اور پرمافراسٹ میں ہزاروں سال سے منجمد قدیم جراثیم گلوبل وارمنگ کے باعث برف پگھلنے سے ابھر سکتے ہیں اور ایک اہم خطرہ بن سکتے ہیں۔
جرنل پی ایل او ایس کمپیوٹیشنل بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے جدید حیاتیاتی برادریوں میں ایک قسم کے قدیم جراثیم کے اخراج کی نقل کرنے کیلئے ایویڈا نامی سافٹ ویئر کا استعمال کیا۔
اس کے نتائج خطرناک تھے، تحقیق کر نے والوں نے بتایا کہ صرف ایک غیر فعال پیتھوجین کے مصنوعی اخراج کا ایک فیصد ماحولیاتی نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور دنیا بھر میں میزبان حیاتیات کے وسیع پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتا ہے.
“یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کے ’وقت کا سفر کرنے والے‘ حملہ آور جدید معاشروں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، اموجودہ اعداد و شمار بہت کم ہیں جو مفروضے کی جانچ کرسکتے ہیں. محققین کا کہنا تھا کہ حیاتیاتی حملے حیاتیاتی تنوع اور انسانی معاشروں کے لیے ایک بڑا ممکنہ خطرہ ہیں جس میں نئے، ابھرتے ہوئے جراثیموں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی اخراجات بھی شامل ہیں۔
دی کنورسیشن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ایسی نہیں جو پہلے کبھی نہ کی گئی ہو۔
سال2003 میں شنگھائی تبتی سطح مرتفع پر برف کی ٹوپی میں کھدائی کیے گئے برف کے کور سے لیے گئے نمونوں سے بیکٹیریا کو دوبارہ زندہ کیا گیا تھا، جو ساڑھے سات لاکھ سال پرانا تھا۔ 2014 میں 30 ہزار سال پرانے سائبیریا کے پرمافراسٹ سے ایک بڑے ’زومبی‘ پیتھو وائرس سیبیریکم وائرس کو بھی دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔
سال 2016 میں مغربی سائبیریا میں اینتھریکس کی وبا، جس نے ہزاروں ہرنوں کو ہلاک اور درجنوں افراد کو متاثر کیا تھا، کو پرمافراسٹ میں بیسیلس انتھراکس بیجوں کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے منسوب کیا گیا تھا.
زمین کی آب و ہوا خطرناک حد تک گرم ہو رہی ہے، اور آرکٹک جیسے سرد علاقوں میں یہ چار گنا زیادہ تیز ہے۔ ہر سال پگھلتی برف سے ایک اندازے کے مطابق چار سیکسٹیلین مائکروجینز کا اخراج ہوسکتا ہے ، جن میں پیتھوجینز بھی شامل ہیں جو ممکنہ طور پر جدید انواع کو متاثر کرسکتے ہیں۔
اگرچہ محققین نے انسانوں کے لیے ممکنہ خطرے کا ماڈل نہیں بنایا ، لیکن انہوں نے اس امکان پر روشنی ڈالی کہ برف سے بندھے وائرس زونوٹک راستے کے ذریعے انسانی آبادی میں داخل ہوتے ہیں۔
قابل ذکر وائرس جیسے سارس کوو -2 ، ایبولا ، اور ایچ آئی وی ممکنہ طور پر دوسرے جانوروں کے میزبانوں کے ساتھ رابطے کے ذریعہ انسانوں میں منتقل ہوئے تھے۔
مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگرچہ پگھلتی برف سے کسی جراثیم کے ابھرنے اور تباہ کن معدومیت کا سبب بننے کے امکانات کم ہیں ، لیکن اب یہ ایک تصور نہیں ہے جس کے لئے ہمیں تیاری نہیں کرنی چاہئیے۔ بطورایک معاشرہ ہمیں ان ممکنہ خطرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ مؤثر طریقے سے تیاری کی جا سکے.
“انسانی صحت پر اس طرح کے ابھرتے ہوئے جراثیموں کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، اور کچھ مختصر وقت کے پیمانے پر لیبارٹری تجربات کیے گئے ہیں جو بیکٹیریا کی ’آبائی‘ اقسام اور فائلوجینیٹک طور پرچھوٹے فیجز کے مابین تعامل کی جانچ کرتے ہیں۔
تاہم وقت کے سفر کرنے والے حملہ آوروں کی ممکنہ ماحولیاتی مطابقت بڑی حد تک غیر واضح ہے، خاص طور پر کمیونٹی کی سطح پر نتائج کے حوالے سے۔