اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مانیٹرنگ کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سلامتی کونسل کو 25 جولائی کو رپورٹ پیش کرنے والی کمیٹی نےروشنی ڈالی کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ٹی ٹی پی افغانستان میں کس طرح زور پکڑ رہی ہے اور کس طرح دیگر دہشت گرد تنظیمیں جنگ زدہ ملک میں اپنی سرگرمیوں کے لیے ٹی ٹی پی کور استعمال کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں ٹی ٹی پی افغانستان سے باہر کارروائیوں سے متعلق پاکستان کے موقف کی توثیق کی گئی ہے جس کے مطابق ، ”رکن ممالک کا اندازہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیوں میں تیزی لارہی ہے۔ متعدد منقسم گروہوں کے ساتھ اتحاد کے بعد سے ٹی ٹی پی افغانستان میں طالبان کے قبضے سے حوصلہ افزائی کے بعد پاکستان میں علاقے پر دوبارہ کنٹرول قائم کی خواہش مند ہے“۔
سلامتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کی توجہ سرحدی علاقوں میں اعلی ٰ اہداف اور شہری علاقوں میں آسان اہداف پر مرکوز تھی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا افغانستان میں محفوظ آپریٹنگ بیس برقرار رہا تو وہ علاقائی خطرہ بن سکتی ہے۔
کچھ رکن ممالک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی ایک چھتری فراہم کر سکتی ہے جس کے تحت متعدد غیر ملکی گروہ کام کرتے ہیں تاکہ طالبان کی طرف سے کنٹرول کی کوششوں سے بچا جا سکے۔
ایک رکن ملک نے برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) اور ٹی ٹی پی کے انضمام کے امکانات کا ذکر کیا۔
رپورٹ میں اندازہ لگایا گیاہے کہ القاعدہ پاکستان کے اندر حملوں میں اضافے کیلئے کالعدم ٹی ٹی پی کو رہنمائی فراہم کر رہی ہےیہ بھی بتایا گیا کہ افغان صوبہ کنڑ میں ای ٹی آئی ایم (ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ) کے تربیتی کیمپ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے اور رکن ممالک کی جانب سے عراق اور شام خراسان میں دولت اسلامیہ کی خطے میں خطرہ پیدا کرنے اور یورپ تک پھیلنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رکن ممالک نے بتایا کہ افغانستان دہشتگردی کے لئے عالمی اہمیت کا مقام بنا ہوا ہے اور ملک میں تقریبا 20 دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں۔
ایک رکن ملک نے اندازہ لگایا کہ ان دہشت گرد گروہوں کا مقصد پورے خطے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانا اور مذہبی نیم ریاستی اتحاد قائم کرنا ہے۔
طالبان اور القاعدہ کے درمیان قریبی اور باہمی تعلقات برقرار ہیں۔القاعدہ افغانستان میں خفیہ طور پر کام کرتی ہے تاکہ اس بیانیے کو فروغ دینے میں مدد مل سکے کہ طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تعمیل کریں۔
دراصل طالبان حکام کے اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی میں القاعدہ کے ارکان قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پبلک ایڈمنسٹریشن اداروں میں دراندازی کرتے ہیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے القاعدہ سیلز کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔
القاعدہ افغانستان کو ایک نظریاتی اور لاجسٹک مرکز کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ نئے جنگجوؤں کو متحرک اور بھرتی کیا جا سکے۔
تنظیم نو کے مرحلے میں ہے اور کنڑ اور نورستان صوبوں میں نئے تربیتی مراکز قائم کرنے والی القاعدہ کے رہنما افغانستان میں موجود غیر افغان نژاد علاقائی دہشت گرد گروہوں بشمول اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو)، ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی اور جماعت انصار اللہ کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، جو وسطی ایشیا کے ممالک میں دراندازی اور مضبوط گڑھ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایک رکن ملک نے اندازہ لگایا کہ القاعدہ کے وسط سے طویل مدتی امکانات کا انحصار افغانستان کی مجموعی صورتحال پر ہے۔ اگر افغانستان افراتفری اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے تو القاعدہ کی بنیاد مضبوط ہو جائے گی۔ اگر ملک میں استحکام آ جاتا ہے تو القاعدہ ممکنہ طور پر تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی۔