افغانستان میں عبوری حکومت سنبھالنے والی طالبان انتظامیہ نے خواتین کے بیوٹی پارلربند کرنے کے بعد مردوں کے نک ٹائی لگانے پر بھی پابندی عائد کردی۔
اس حوالے سے رہنمائی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد ہاشم شہید ورور کا کہنا ہے کہ بعض اوقات جب میں اسپتالوں اور دیگر علاقوں میں جاتا ہوں تو ایک افغان مسلمان انجنیئر یا ڈاکٹر گردن کی پٹی استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے ٹولو ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں کہا کہ ٹائی کی علامت اسلام میں واضح ہے۔ ٹائی کیا ہے؟ یہ صلیب ہے. شریعت میں حکم دیا گیا ہے کہ آپ اسے توڑ دیں اور ختم کر دیں۔
طالبان حکام نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مردوں پر لباس کا کوئی ضابطہ نافذ نہیں کیا تھا لیکن خواتین کو عوامی مقامات پر باہر نکلتے وقت حجاب پہننے کا پابند کیا تھا۔
طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں مغربی لباس بہت کم پہنے جاتے ہیں لیکن کچھ پیشہ ور افراد اور ٹی وی چینلز پر نیوز ریڈرز اب بھی کالر اور ٹائی پہنتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ٹائی 17 ویں صدی میں سامنے آئی تھی اور فرانسیسیوں نے اسے فیشن اسٹیپل بنا دیا تھا۔
پچھلی افغان انتظامیہ نے بھی آبادی یا کم از کم حکام پر لباس کے ضوابط نافذ کرنے کی کوشش کی ۔
سال 1979 میں شروع ہونے والے ایک دہائی طویل سوویت قبضے کے دوران س رکاری ملازمین کیلئے روایتی لباس پہننے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان سے سوٹ پہننے کے لئے کہا گیا تھا۔
سابق صدر اشرف غنی، جو 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے، نے بیرون ملک مغربی لباس اور اندرون ملک روایتی لباس کو ترجیح دی۔
دو دہائیوں پر محیط شورش کے دوران طالبان کے جنگجوؤں نے شلوار قمیض پہنے رکھی تھی لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انہوں نے مسلح افواج کے لیے جدید فوجی وردی متعارف کروائی ہے۔