سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں قرآن کی بے حرمتی کی گئی تو وہ اس کے نتائج کے بارے میں ’انتہائی فکرمند‘ ہیں۔
مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کے نتیجے میں مکنہ ردعمل پر اپنی تشویش کا اظہارکرنے والے الف کرسٹرسن نے سویڈش خبر رساں ادارے ٹی ٹی کو بتایا کہ قرآن پاک کی بےحرمتی کیلئے پولیس کو مزید درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پر حملوں نے ترکی ، عراق، پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کو ناراض کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسے اقدامات کی اجازت دی گئی تو ہمیں ایسے دنوں کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں کچھ سنگین ہونے کا واضح خطرہ ہے۔ ”میں اس بارے میں بہت فکرمند ہوں کہ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے“۔
الف کرسٹرسن نے کہا کہ مظاہروں کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پولیس پر منحصر ہے۔
بدھ کے روز کرسٹرسن اور دیگر سویڈش حکام نے کہا تھا کہ ملک کو غلط معلومات پھیلانے کی مہم کا نشانہ بنایا گیا جس میں ’روس کے حمایت یافتہ عناصر‘ نے ہمارے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔ سویڈن نے الزام عائد کیا ہے کہ روس اور دیگر ممالک اس بحران کو ہمارے مفادات اور نیٹو میں شامل ہونے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
شہری دفاع کے وزیر کارل اوسکر بوہلن کا کہنا ہے کہ روس کے حمایت یافتہ عناصر ایسے غلط بیانات دے رہے ہیں کہ مقدس صحیفوں کی بے حرمتی کے پیچھے سویڈش ریاست کا ہاتھ ہے۔سویڈن کی سکیورٹی سروس ساپو کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ واقعات پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
ڈنمارک اور سویڈن نے کہا ہے کہ وہ قرآن کو جلانے کی مذمت کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کے قوانین کے تحت اسے روک نہیں سکتے۔
سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے جمعرات کے روز کہا کہ،”کچھ ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سویڈش ریاست اس کے پیچھے ہے، یا اس کی حمایت کرتی ہے۔ ہم ایسا نہیں کرتے۔ یہ افراد کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں ہیں، لیکن وہ آزادی اظہار کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا کرتے ہیں“۔
بلسٹروم نے کہا کہ وہ ایران، عراق، الجزائر اور لبنان کے وزرائے خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ موجودہ بحران کے بارے میں رابطے میں ہیں اور جلد ہیسلامی ممالک کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل سے بات کریں گے۔