لندن ہائی کورٹ نے پناہ گزین بچوں کو برطانیہ کے ہوٹلوں میں رکھنے کا اقدام غیرقانونی قراردے دیا۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ برطانیہ ایک سال سے زائد عرصے سے غیر قانونی طور پر پناہ کے متلاشی بچوں کو منظم اور معمول کی بنیاد پر ہوٹلوں میں پناہ دے رہا ہے۔
جج مارٹن چیمبرلین نے ایوری چائلڈ پروٹیکٹڈ اگینسٹ ٹریفکنگ (ای سی پی اے ٹی) کی جانب سے پناہ کے متلاشی بچوں کی رہائش کے حوالے سے دائر قانونی چیلنج کو برقرار رکھا، جن میں سے کئی چھوٹی کشتیوں میں فرانس سے انگلش چینل عبور کرچکے ہیں۔
ای سی پی اے ٹی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا ہوم آفس غیر قانونی طور پر ہوٹلوں میں بچوں کو پناہ دے رہا ہے اور اس نے غیر قانونی طور پر اتفاق کیا ہے کہ مقامی اتھارٹی کینٹ کاؤنٹی کونسل، جس میں زیادہ تر پناہ گزین آتے ہیں، صرف ایک محدود تعداد میں بچوں کو قبول کرے گی۔
تاہم برطانوی ہوم آفس نے اس فیصلے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
چیمبرلین نے ایک تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ پناہ کے متلاشی بچوں کو ’حقیقی ہنگامی حالات میں بہت کم وقت کے لیے‘ ہوٹلوں میں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ، “دسمبر 2021 سے تمقامی اتھارٹی کی دیکھ بھال کے باہر، ہوٹلوں میں بچوں کو ٹھہرانے کا عمل منظم اور معمول کے مطابق تھا اور پناہ کے متلاشی بچوں سے نمٹنے کے طریقہ کار کا ایک مستحکم حصہ بن گیا تھا۔
اس کے بعد سے وزیر داخلہ کی جانب سے پناہ کے متلاشی بچوں کے لیے ہوٹل میں رہائش کی فراہمی ان کے اختیارات کی مناسب حدود سے تجاوز کر گئی اور یہ غیر قانونی تھا۔
ای سی پی اے ٹی کی سی ای او پیٹریشیا ڈور نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ ”واضح اور بروقت یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے کہ نہ تو مرکزی اور نہ ہی مقامی حکومت کے محکمے قانونی چائلڈ ویلفیئر فریم ورک اور تمام بچوں کے تئیں فرائض سے دستبردارہوسکتے ہیں“۔