امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی سفارت کار رواں ہفتے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے، جس میں واشنگٹن اور حکمراں افغان گروپ کے درمیان براہ راست بات چیت ہوگی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق فغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائند تھامس ویسٹ اور افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی رینا امیری آستانہ قازقستان میں قازقستان، کرغیز جمہوریہ، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندوں کے ساتھ افغانستان سے متعلق ملاقاتیں کریں گے۔
تھامس ویسٹ اور رینا امیری قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے نمائندوں اور افغان وزارت کے دیگر حکام کے ایک وفد سے ملاقات میں افغانستان کے اہم مفادات پر تبادلہ خیال کرے گا۔
ترجیحی امور میں افغانستان کے عوام کے لیے انسانی امداد، معاشی استحکام، خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے ساتھ منصفانہ اور باوقار سلوک، سیکیورٹی کے معاملات اور منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کی روک تھام کی کوششیں شامل ہیں۔
20 سالہ جنگ کے بعد اگست 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔ واشنگٹن اب بھی کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس نے گروپ اور اس کے رہنماؤں کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
محکمہ خارجہ نے بدھ 26 جولائی کو اپنے بیان میں کہا کہ دوحہ میں ہونے والی ملاقاتیں امریکی موقف میں تبدیلی کا اشارہ نہیں دیں گی۔
ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا، “ہم بہت واضح ہیں کہ ہم طالبان کے ساتھ مناسب طریقے سے بات چیت کریں گے جب ایسا کرنا ہمارے مفاد میں ہوگا۔ اس کا مطلب طالبان کو تسلیم کرنے یا ان کے معمول پر لانے یا ان کے قانونی ہونے کا کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں ہے’۔
2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کو خواتین کی تعلیم پر عائد پابندیوں پر متعدد مسلم اکثریتی ممالک سمیت بین الاقوامی سطح پر مذمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی عائد کرے کے علاوہ انہوں نے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے پہلے اسکول جانے سے روک دیا۔ رواں ماہ کے اوائل میں خواتین کے بیوٹی پارلرز پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
گزشتہ سال کے اواخر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے طالبان کو متنبہ کیا تھا کہ اگر طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی تو اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔
افغانستان کو انسانی بحران کا سامنا ہے اور اس کی تقریبا آدھی آبادی یعنی 23 ملین افراد کو گزشتہ سال ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) سے امداد ملی تھی۔ طالبان حکام نےپابندیاں اٹھا لینے کی صورت میں امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2001 میں نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں القاعدہ کے نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت ملک پر کنٹرول رکھنے والے طالبان نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی میزبانی کی تھی۔ تاہم طویل جنگ کے باوجود مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2020 میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر اتفاق کیا گیا تھا۔
صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کا احترام کیا، لیکن امریکی انخلاء نے ان کی انتظامیہ کے خلاف داخلی ردعمل کو جنم دیا۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا جائزہ لینے والے حالیہ داخلی جائزوں میں بائیڈن انتظامیہ نے آپریشن میں خامیوں کا اعتراف کیا ہے جبکہ 2020 کے معاہدے کے بعد انخلا کی منصوبہ بندی میں ناکامی پر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔