خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیرمیں مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے اور وہاں کے رہائشی نصراللہ نامی شخص سے شادی کرنے والی بھارتی خاتون انجو نے اپنی شادی اور تبدیلی مذہب سے متعلق خبروں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
منگل کے روز نصر اللہ کے ساتھ انجو کے نکاح کی خبر اور ثبوت سامنے آنے کے فورا بعد یہ تردید سامنے آئی ہے۔
نامہ نگاروں نے مقامی عہدیداروں سے نکاح نامہ یا شادی کے سرٹیفکیٹ اور انجو کے حلف نامہ کی کاپیاں حاصل کیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جاسکے کہ انجو اور نصراللہ شادی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں اور تبدیلی مذہب کے بعد انجو کا اسلامی نام فاطمہ رکھا گیا ہے۔
نکاح کرانے والے مذہبی پیشوا قزری شمروز خان نے بھی کہا کہ یہ جوڑا واقعی شادی شدہ ہے۔
تاہم بھارتی خاتون نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار کو بتایا کہ نصراللہ کے ساتھ ان کی شادی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
انہوں نے ان خبروں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بدھ 26 جولائی کو بھارت روانہ ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
انجو نے انڈیا ٹوڈے سے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ نصراللہ اور میری شادی کے دعوے جھوٹے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ عدالت میں کیوں گئیں، انجو نے کہا، ’ایک عمل ہے جس کے ذریعے میں ہندوستان واپس آؤں گی، اسی لیے میں وہاں گئی تھی۔
بھارتی خاتون نے بتایا کہ وہ نصراللہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے باہر گئی تھیں اور اس دوران مقامی وی لاگر نے ان کی ویڈیو بنائی۔
انجو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے برقعہ نہیں پہنا تھا۔ ویڈیو میں نظر آنے والے سیاہ لباس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ برقعہ نہیں ہے‘ کچھ مختلف ہے۔ جب ہم باہر جاتے ہیں، تو کچھ چھپانے کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے پہنا۔
’انجو ویڈز نصراللہ‘ کے کیپشن سے اس ویڈیو میں جوڑے کو ہاتھ پکڑ کرایک ساتھ چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
دوسری جانب نصراللہ نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوئی ہے۔
نصراللہ نے نکاح اور انجو کے مذہب تبدیل کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
۔انہوں نے کہا کہ حکام نے ان کے گھر پر کم از کم 50 پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔
شادی کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر نصراللہ نے کہا، ’یہ میرا شادی کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ یہ جھوٹی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں‘۔