بھارتی ریاست مدراس کی اعلیٰ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر مندر تشدد کا سبب بنیں تو انہیں بند کر دینا بہتر ہے۔
مدراس ہائی کورٹ نے جمعہ کو ایک مندر کے تہوار پر دو گروہوں کے درمیان جھگڑے کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے۔
جسٹس آنند وینکٹیش نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی گروہ مندروں کے تہواروں کو اپنی طاقت اور اثر دکھانے کا موقع سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ان تہواروں کے انعقاد میں کوئی عقیدت شامل نہیں ہے بلکہ یہ ایک یا دوسرے گروہ کی طاقت کا مظاہرہ بن گیا ہے‘۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ، عدالت نے تمل ناڈو کے مائیلادوتھرائی شہر میں شری روتھرا مہا کلیممان الائم مندر میں ایک تہوار کے انعقاد کے لیے پولیس تحفظ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
اپنی درخواست میں مندر کے موروثی ٹرسٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے تھنگراسو نے استدعا کی تھی کہ اتوار سے شروع ہونے والے تہوار کے لیے پولیس کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے، کیونکہ ناخوشگوار واقعات کے خدشات ہیں۔
دریں اثنا، تمل ناڈو حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ دو حریف گروپ اس بات پر جھگڑے میں مصروف ہیں کہ تہوار کے دوران مندر کے اندر مورتی رکھنے کا حق کس کو ہے۔
ایک امن کمیٹی کی جانب سے تنازعہ کو حل کرنے میں ناکامی کے بعد، ریاستی حکومت نے عدالت میں عرض کیا کہ تہوار کے انعقاد سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور کسی بھی گروپ کو مورتی رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
اپنے فیصلے میں، عدالت نے نوٹ کیا کہ پولیس کے پاس زیادہ اہم کام ہیں، اور ان کا وقت اور توانائی کسی مندر میں حریف گروپوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں نہیں لگائی جانی چاہیے۔
جسٹس وینکٹیش نے ریمارکس دیے کہ اگر مندر تشدد کو دوام بخشنے والے ہیں تو مندروں کے وجود کا کوئی مطلب نہیں ہوگا اور ایسے تمام معاملات میں ان مندروں کو بند کرنا بہتر ہوگا تاکہ تشدد کو روکا جاسکے۔
عدالت نے پولیس کو یہ بھی ہدایت کی کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی صورت میں ضروری کارروائی کی جائے۔