سندھ کے ضلع سکھر کی تحصیل پنوں عاقل میں دو برادریوں کے درمیان پسند کی شادی کا تنازعہ اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ معامہ قتل اور اغوا تک پہنچ گیا۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں کچھ بھاری ہتھیاروں سے لیس متعدد افراد کو فائرنگ کرتے اور انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ سانگی پولیس اسٹیشن کے پاس سے گزرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیوز کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ کچے کے ڈاکوؤں نے ایک گاؤں پر دھاوا بولا، لوٹ مار کی، دو افراد کو قتل کیا اور خواتین اور ایک بچی کو ساتھ لے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنما حلیم عادل شیخ نے بھی اسی حوالے سے دو ویڈیوز شئیر کیں اور لکھا، ’یہ سندھ کا کچا نہیں پکا ہے۔ اسے کہتے ہیں ڈاکو راج اور جنگل کا قانون‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ پنوں عاقل شہر کے تھانہ سانگی کے سامنے مسلح افراد نے سرعام دو افراد کو قتل کرکے دو خواتین کو اغواء کر لیا، کوئی جوابدہ ہوگا؟’
حلیم عادل شیخ نے لکھا، ’سندھ حکومت اور سندھ پولیس ڈاکوؤں، دہشتگردوں اور قاتلوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے چونکہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایس ایچ اوز تو کیا ایس ایس پیز کے بھی پر جلتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چونکہ پوسٹنگ جو ”سائیں“ نے دلائی ہوتی ہے۔
در حقیقت یہ معاملہ دو برادریوں میں پسند کی شادی پر تنازعے کا ہے، گزشتہ روز کلہوڑو اور مہر برادری میں رشتہ کے تنازعے پر تصادم ہوا تھا، جس کے نتیجے میں دو افراد قتل ہوئے تھے اور مہر برادری کے افراد نے ایک بچی اور بچی اور دو خواتین کو اغوا کرلیا تھا۔
اسلحہ سے لیس موٹر سائیکلوں پر سوار 100 سے زائد ملزمان سانگی پولیس اسٹیشن کے سامنے سے گزرے تو پولیس نے خوف کے مارے تھانے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کو اس وقت ہوش آیا جب کلھوڑو برادری کے افراد نے میتیں لے کر پنوعاقل نیشنل ہائے پر دھرنا دیا اور نو گھنٹے تک ٹریفک معطل رہی۔
جس کے بعد پولیس نے رضا گوٹھ میں آپریشن کیا اور بچی اور خواتین کو بازیاب کروا لیا ۔
ایس ایس پی سکھر نے ایس ایچ او سانگی ثنااللہ سمیت پورے تھانے کو معطل کردیا، تاہم ملزمان کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔