Aaj Logo

شائع 22 جولائ 2023 03:54pm

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم دماغ ، ’کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں‘

گزشتہ 9 سال سے ہر سال 22 جولائی کو منایا جانے والا ورلڈ برین ڈے ’عالمی یوم دماغ‘ دماغی بیماریوں اور دیگرافعال کے بارے میں آگاہی پھیلاتا ہے۔

دماغی امراض کے حوالے سے نمائندہ تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی (ڈبلیو ایف این) اور عالمی فیڈریشن برائے نیورو ری ہیبلیٹیشن (ڈبلیو ایف این آر) نے مشترکہ طور پر رواں سال منائے جانے والے عالمی یومِ دماغ کا عنوان ’دماغی صحت اور معذوری، کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں‘ قرار دیا ہے۔

اس عنوان کے تحت رواں سال ذہنی معذور افراد کو درپیش مسائل اور انہیں دوران علاج پیش آنے والی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔

دماغی معذوری کسی بھی فرد کو متاثر کرسکتی ہے۔ دماغ کے عالمی دن کے موقع پر اس کی آگاہی اور علاج تک رسائی کو بہتر بنانے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان معذوریوں کا علاج اور بحالی کی سہولیات میسر ہیں۔

ڈبلیو ایف این اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد تقریباً ایک ارب 30 کروڑ ہے، ان میں سے تقریباً 9 کروڑ 30 لاکھ بچے ہیں۔ پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں معذور افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے پاکستان میں کل معذور آبادی کا 43 فیصد بچے ہیں۔ ان میں سے 14 لاکھ بچے اسکول جانے کی عمر کے ہیں لیکن انہیں تعلیم تک رسائی نہیں ۔

پاکستان میں دستیاب اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 65 فیصد معذوروں کا تعلق دیہی جبکہ 34 فیصد کا شہری آبادی سے ہے۔ ان میں مردوں کی اکثریت 58 جبکہ خواتین کی 42 فیصد ہے۔

دماغ کاعالمی دن منانے کے مقاصد

دماغ کے عالمی دن کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں

ٓعالمی سطح پر دماغی صحت سے متعلق آگاہی ذہنی، سماجی اور جسمانی تندرستی کے لیے ضروری ہے، جس سے دماغی بیماریوں سے وابستہ معذوری کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے.

دماغی بیماری کی روک تھام اورعلاج تک رسائی

دماغی معذوری قابل روک تھام اور قابل علاج ہے۔ ہر ایک کو دیکھ بھال، علاج، بحالی، اور معاون ٹیکنالوجی اور علاج تک رسائی حاصل ہونی چاہئے۔

اگرچہ دماغی امراض دنیا کی مہنگی ترین بیماریوں میں سے ایک ہیں اور معذوری اور موت کی بنیادی وجہ ہیں لیکن یہ بات تشویشناک ہے کہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں اس کی روک تھام، علاج، تعلیم اور تحقیق کے لیے فنڈز محدود ہیں۔

لہذا، دماغی بیماریوں کے بارے میں آگاہی بڑھانا اور بیماری پر قابو پانے کے لئے انہیں ایک اعلی ترجیحی شعبے کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے۔

Read Comments